خلیج میں بڑھتی کشیدگی: امریکا کا سعودی عرب میں فوج تعینات کرنے کا اعلان
پینٹاگون نے کہا ہے کہ امریکا نے خلیج میں ایران کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے بعد سعودی عرب میں فوجی اہلکاروں اور وسائل کی تعیناتی کی اجازت دے دی ہے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق پینٹاگون کا کہنا تھا کہ یہ اقدام خطے میں ’بڑھتے خطرات‘ کو ’ایک اضافی مزاحمت‘ فراہم کرے گا۔
واضح رہے کہ یہ بیان سعودی عرب کی وزارت دفاع کی جانب سے اس بات کی تصدیق کہ خطے کی سیکیورٹی اور استحکام کے فروغ کے لیے ریاست امریکی فورسز کی میزبانی کرے گا کے بعد سامنے آیا۔
سعودی عرب کی سرکاری خبررساں ایجنسی ایس پی اے کی جانب سے وزارت کے ترجمان کو نقل کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ’ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان باہمی تعاون اور خطے کے استحکام اور سیکیورٹی کو محفوظ بنانے کے لیے ان کی خواہش کی بنیاد پر شاہ سلمان نے امریکی فورسز کی میزبانی کرنے کے لیے منظوری دی‘۔
مزید پڑھیں: برطانوی تیل بردار جہاز کو آبنائے ہرمز سے قبضے میں لیا گیا، ایران
دوسری جانب ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس تعیناتی میں تقریباً 500 فورجی اہلکار شامل ہوں گے اور یہ عمل مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافے کا حصہ ہے جس کا اعلان گزشتہ ماہ پینٹاگون نے کیا تھا۔
امریکی فوج کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ اس کے پاس آبنائے ہرمز کی نگرانی کے لیے طیاروں کا نظام ہے اور وہ مشرق وسطیٰ کی اہم گزرگاہوں میں آزادانہ نقل و حرکت یقینی بنانے کے لیے ’ملٹی نیشنل میری ٹائم ایفرٹ‘ تیار کررہا ہے۔
قبل ازیں جون میں امریکا کے قائم مقام سیکریٹری دفاع پیٹرک شاناہن نے کہا تھا کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے لیے مزید ایک ہزار فوجی کی تعیناتی کی منظوری دی ہے جبکہ اس اقدام کو انہوں نے ایران سے خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے ’دفاعی مقاصد‘ کے طور پر بیان کیا تھا۔
تاہم اس وقت پینٹاگون کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ فوجیں کہاں تعینات کی جائیں گی۔
یاد رہے کہ 12 مئی کو 4 ٹینکرز پر حملے کے جواب میں امریکی حکام نے مشرق وسطیٰ میں امریکی دفاع کو تقویت دینے کے لیے 900 مزید فورسز کو بھیجنے کا اعلان کیا تھا، جس میں انجینئرز اور لڑاکا طیاروں کے اسکوارڈن شامل تھے، اس کے ساتھ ساتھ پیٹریاٹ میزائلز کے 600 اہلکار کی تعیناتی بھی بڑھادی تھی۔
ساتھ ہی ایران سے غیرمتوقع خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے واشنگٹن نے خطے کے لیے جنگی جہاز اور پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس بیٹری بھی بھیجی تھی۔
خیال رہے کہ سعودی عرب میں امریکی فوج کی موجودگی کا آغاز 1991 کی خلیج جنگ کے دوران شروع ہوا تھا اور یہ 12 سال تک جاری رہا تھا، جس کے بعد 2003 میں امریکی فوج کا ریاست سے انخلا ہوا تھا، اس عرصے میں امریکی طیارے شہزادہ سلطان ایئربیس پر کھڑے تھے جو دارالحکومت ریاض سے کچھ 80 کلومیٹر جنوب میں ہے۔
مشرق وسطیٰ کی کشیدگی کی بات کی جائے تو ایران اور امریکا کے درمیان ایک طویل عرصے سے یہ کشیدگی چلتی آرہی ہے اور دیگر ممالک سے بھی تعلقات بہتر نظر نہیں آتے جبکہ خطے میں ایران کو سعودی عرب کا بھی حریف سمجھا جاتا ہے۔
تاہم اس کشیدگی میں اضافہ اس وقت ہوا جب 19 جولائی کو ایرانی پاسداران انقلاب نے مبینہ طور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر آبنائے ہرمز میں برطانوی تیل بردار جہاز کو پکڑ لیا۔
کمپنی کے مطابق جہاز اسٹینا امپیرو کو اس وقت پکڑا گیا جب اس میں عملے کے 23 افراد موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران نے تیل کی اسمگلنگ پر غیرملکی جہاز قبضے میں لے لیا
برطانوی دفتر خارجہ کی جانب سے دوسرے نیوی جہاز کے پکڑے جانے کی تصدیق کی گئی تھی اس سے قبل میسدار جہاز کو ایرانی حکام کی جانب سے آبنائے ہرمز میں پکڑا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ایرانی کی جانب سے یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکی نیوی کے جہاز نے آبنائے ہرمز میں ایک ایرانی ڈرون ’تباہ‘ کردیا، تاہم ایران نے ان دعووں کی تردید کی تھی۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ ایران نے نگرانی کرنے والے امریکی ڈرون کو مار گرایا تھا اور کہا تھا کہ یہ ایرانی فضائی حدود کی خلاف وزری کر رہا تھا جبکہ امریکا نے کہا تھا کہ اس کا ڈرون بین الاقوامی پانیوں پر تھا۔