• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

ایل این جی کیس: مفتاح اسمٰعیل کی گرفتاری کیلئے نیب کے چھاپے

شائع July 18, 2019

قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس میں نامزد مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کو گرفتار کرنے کے لیے ان کی رہائش گاہ اور دفتر پر چھاپے مارے تاہم ان کی گرفتاری عمل میں نہ آسکی۔

واضح رہے کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے مفتاح اسمٰعیل کے وارنٹ گرفتاری پر دستخط کیے تھے۔

بتایا گیا جب نیب حکام مفتاح اسمٰعیل کو گرفتار کرنے کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچے تو انہیں اہلخانہ کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

نیب افسران، خواتین پولیس اہلکاروں کے ہمراہ مفتاح اسمٰعیل کے گھر پہنچے تو انہیں صدر دروازے پر بھی روک دیا گیا۔

نیب حکام مفتاح اسمٰعیل کی رہائش گاہ کے باہر کھڑے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
نیب حکام مفتاح اسمٰعیل کی رہائش گاہ کے باہر کھڑے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

اہلخانہ کی جانب سے نیب افسران کو بتایا گیا کہ مفتاح اسمٰعیل گھر پر موجود نہیں ہیں اور گھر میں صرف خواتین ہیں۔

جس پر نیب افسران نے اصرار کیا کہ سابق وزیر خزانہ گھر پر موجود ہیں اور نیب اہلکار اپنے ہمراہ خواتین پولیس اہلکاروں کو ساتھ لائیں ہیں۔

بعد ازاں نیب ٹیم کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ نیب ٹیم نے مفتاح اسمٰعیل کے گھر کی تلاشی لی، تاہم انہیں لیگی رہنما نہیں ملے۔

اہلخانہ کی جانب سے نیب ٹیم کو مزاحمت کا سامنا رہا — فوٹو: ڈان نیوز
اہلخانہ کی جانب سے نیب ٹیم کو مزاحمت کا سامنا رہا — فوٹو: ڈان نیوز

جس کے بعد نیب ٹیم مفتاح اسمٰعیل کو گرفتار کیے بغیر ہی روانہ ہوگئی۔

بعد ازاں نیب ٹیم کی جانب سے مفتاح اسمٰعیل کو گرفتار کرنے کے لیے اسمٰعیل انڈسٹری کے دفاتر پر بھی چھاپے مارے گئے لیکن وہاں بھی اسے کامیابی نہیں ملی۔

واضح رہے کہ نیب پہلے ہی ایل این جی کیس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر شاہد خاقان عباسی کو گرفتار کرچکی ہے۔

نیب نے سابق وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی کو تفتیش کے لیے طلب کر رکھا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے تھے۔

اس سے قبل نیب نے انہیں 8 مرتبہ طلبی کے نوٹس جاری کیے جس میں سے وہ 5 نوٹسز پر تفتیش کے لیے پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف نیب تحقیقات اگلے مرحلے میں داخل

ایل این جی کیس

یاد رہے کہ نیب انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سوئی سدرن کیس کمپنی لمیٹٰڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم کی انتظامیہ نے غیر شفاف طریقے سے ایم/ایس اینگرو کو کراچی پورٹ پر ایل این جی ٹرمینل کا کامیاب بولی دہندہ قرار دیا تھا۔

اس کے ساتھ ایس ایس جی سی ایل نے اینگرو کی ایک ذیلی کمپنی کو روزانہ کی مقررہ قیمت پر ایل این جی کی ریگیسفائینگ کے 15 ٹھیکے تفویض کیے تھے۔

نہ صرف شاہد خاقان عباسی بلکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف پر بھی اپنی مرضی کی 15 مختلف کمپنیوں کو ایل این جی ٹرمنل کا ٹھیکا دے کر اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

2016 میں مسلم لیگ (ن) کی دورِ حکومت میں نیب کراچی میں منعقدہ ریجنل بورڈ کے اجلاس میں شاہد خاقان عباسی کے خلاف انکوائری بند کردی تھی۔

رواں برس 2 جنوری کو ای بی ایم نے اس وقت شاہد خاقان عباسی کے خلاف 2 انکوائریز کی منظوری دی تھی، جب وہ سابق وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل تھے، ان انکوائریز میں سے ایک ایل این جی کی درآمدات میں بے ضابطگیوں میں ان کی مبینہ شمولیت جبکہ دوسری نعیم الدین خان کو بینک آف پنجاب کا صدر مقرر کرنے سے متعلق تھی۔

تاہم شاہد خاقان عباسی کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ایل این کی درآمد کے لیے دیے گئے ٹھیکے میں کوئی بے ضابطگی نہیں کی اور وہ ہر فورم پر اپنی بے گناہی ثابت کرسکتے ہیں اور یہ کہ 2013 میں ایل این جی برآمد وقت کی اہم ضرورت تھی۔

مزید پڑھیں: ایل این جی کے ’غیر شفاف‘ ٹھیکوں پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ

مارچ میں سابق وزیر اعظم ایل این جی کیس میں نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے، جس کے بعد احتساب کے ادارے نے ان پر سفری پابندی لگانے کی تجویز دی تھی۔

جس کے بعد رواں برس اپریل میں حکومت نے36 ارب 69 کروڑ 90 لاکھ روپے مالیت کے ایل این جی کیس میں شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سمیت 5 افراد کے بیرونِ ملک سفر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔

سابق وزیراعظم گزشتہ ماہ (جون ) میں بھی تفتیش کے لیے نیب میں پیش ہوئے تھے جس کے بعد نیب نے شاہد خاقان عباسی کو ان کے خلاف جاری تفتیش کے پیشِ نظر بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا۔

تاہم شاہد خاقان عباسی نے نیب کی جانب سے مزید ریکارڈ طلب کیے جانے پر مہلت طلب کی تھی اور اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ متعلقہ ریکارڈ ان کے پاس نہیں بلکہ وزارت پیٹرولیم کے پاس ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024