• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف قرارداد جمع کروادی

شائع July 9, 2019
سینیٹ میں اس وقت مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہے—فائل فوٹو: اے پی پی
سینیٹ میں اس وقت مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہے—فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: ملک کی 2 بڑی اپوزیشن جماعتوں کی قیادت پر بدعنوانی کے الزامات کے باوجود پی ٹی آئی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایوان بالا میں موجود اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد اور سینیٹ اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کروادی۔

چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد کو سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کروانے کے لیے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کا ایک اجلاس سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجا ظفر الحق کی صدارت میں ہوا ، جس میں تحریک عدم اعتماد کے لیے حکمت عملی اپنائی گئی ۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے دوران راجا ظفر الحق کو صادق سنجرانی سے شکست ہوئی تھی۔

اپوزیشن سینیٹرز کے اجلاس میں پیپلزپارٹی کی شیری رحمٰن، مسلم لیگ (ن) کے پرویز رشید، مصدق ملک، آصف کرمانی سمیت سسی پلیجو، یوسف بادینی، ڈاکٹر اشوک کمار، مشاہد اللہ خان، ستارہ ایاز و دیگر شریک ہوئے۔

اس کے علاوہ پیپلزپارٹی سے ناراض سمجھے جانے والے سینیٹر خانزادہ خان بھی اس اجلاس میں شریک ہوئے تاہم اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں جماعت اسلامی کے سینیٹر سراج الحق اور مشتاق احمد نے شرکت نہیں کی۔

تاہم ذرائع نے بتایا کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد تیار کرنے کے لیے مختلف امور کا جائزہ لیا گیا جبکہ سینیٹر شیری رحمٰن نے رولز پر بریفنگ دی۔

بعد ازاں ذرائع کے مطابق صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد شیری رحمٰن اور لیگی سینیٹر جاوید عباسی نے تیار کی، جس پر اجلاس میں شریک تمام اپوزیشن سینیٹرز نے دستخط کردیے۔

ساتھ ہی ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اپوزیشن نے سینیٹ اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کروانے کا بھی فیصلہ کیا، جسے اس قرارداد کے ساتھ جمع کروایا گیا۔

مزید پڑھیں: چیئرمین سینیٹ کو ہٹا کر بتائیں گے اپوزیشن ساتھ ہے، آصف زرداری

قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس اجلاس کو بلانے کا فیصلہ نیشنل پارٹی (این پی) کے رہنما میر حاصل خان بزنجو کی راجا ظفر الحق سے ملاقات کے بعد کیا گیا۔

ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے کہا تھا کہ ’ہم نے تحریک عدم اعتماد کے لیے حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر تحریک عدم اعتماد پر دستخط کریں گے اور پھر اسے سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کروایا جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کے لیے اپوزیشن کے امیدوار کا فیصلہ جمعرات (11 جولائی) کو رہبر کمیٹی کے اجلاس میں کیا جائے گا، تاہم اب تک میں نہ اس کا امیدوار ہوں اور نہ کسی نے میرا نام تجویز کیا۔

اگرچہ اپوزیشن کے امیدوار کا حتمی فیصلہ جمعرات کو کیا جائے گا لیکن مسلم لیگ (ن) میں موجود ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ جماعت کو اس نشست کے لیے اپوزیشن کے امیدوار کا نام دینے کا موقع دیا گیا تھا، تاہم دوسرے ذرائع کہتے ہیں کہ اپوزیشن کا امیدوار بلوچستان سے ہوگا۔

واضح رہے کہ صادق سنجرانی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے چیئرمین سینیٹ ہیں۔

یاد رہے کہ ایوان بالا کے چیئرمین کو ہٹانے کا فیصلہ 26 جون کو اپوزیشن کی کثیر الجماعتی کانفرنس میں کیا گیا تھا۔

سینیٹ کی بات کی جائے تو وہاں مسلم لیگ (ن) کے پاس اب بھی اکثریت ہے، حیران کن طور پر (ن) لیگ نے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کو دوبارہ منتخب کرنے کے لیے پی پی پی کو مدد کی پیشکش کی تھی تاہم بعد ازاں انہوں نے پی ٹی آئی سے ہاتھ ملا لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو چیئرمین سینیٹ کی حمایت کریں گے، وزیراعظم

چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے 53 ووٹوں کی اکثریت درکار ہے، اس وقت پی پی پی، مسلم لیگ (ن)، نیشنل پارٹی اور جمعیت علما اسلام (جے یو آئی ف) کے 46 ارکان ہیں جبکہ 29 آزاد امیدوار ہیں۔

اس کے علاوہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے 2 اراکین ہیں جبکہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور پی ایم ایل فنکشنل کا ایک، ایک رکن ہے۔

تاہم حکمران جماعت پی ٹی آئی کے 14 اراکین، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے 5 اور جماعت اسلامی (جے آئی) کے 2 سینیٹرز ہیں۔

خیال رہے کہ موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی نے گزشتہ برس 12 مارچ کو پی پی پی اور پاکستان تحریک انصاف کی حمایت سے 57 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ ان کے مدمقابل مسلم لیگ (ن) کے راجا ظفر الحق کو 46 ووٹ ملے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024