آئی ایم ایف پروگرام: اگلے سال کھربوں روپے کے مزید ٹیکس لگائے جائیں گے
اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے جاری کردہ اسٹاف رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مستقبل قریب میں سخت ٹیکسز کا نفاذ ہونے جارہا ہے جس میں رواں برس 15 کھرب 60 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے جائیں گے۔
جس کے بعد آئندہ برس 15 کھرب کے مزید ٹیکسز اور اس کے بعد آنے والے سال میں 13 کھرب 10 ارب روپے کے ٹیکسز لگائے جائیں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے پر مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے بھی دستخط کیے جس کی رو سے اگست کے مہینے کے دوران ایک مرتبہ پھر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: بجٹ آئی ایم ایف کی مشاورت سے تیار کرکے پارلیمنٹ سے منظور کروایا گیا، آئی ایم ایف
علاوہ ازیں آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت صوبے 13 کھرب روپے قومی مالیاتی کمیشن کو واپس کرنے کے بھی پابند ہیں۔
دستاویز میں لگائے گئے تخمینوں کے مطابق حکام نے ایف بی آر سے رواں برس اکٹھا ہونے والے ٹیکس کو گزشتہ برس کے 39 کھرب 40 ارب روپے سے بڑھا کر 55 کھرب کرنے کا وعدہ کیا ہے جو 24-2023 تک 100 کھرب 50 ارب تک پہنچ جائیں گے۔
یوں اکٹھے ہونے والے ٹیکسز میں 5 سال کے دوران 65 کھرب 64 ارب روپے کا اضافہ ہوگا اس طرح مجموعی ملکی پیداوار میں ٹیکسز کی شرح رواں برس 10.4 فیصد سے بڑھ کر 15.3 فیصد ہوجائے گی۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف پیکج: پاکستان کو 6 ارب ڈالر میں سے صرف ایک ارب 65 کروڑ ڈالر ملیں گے
آئی ایم ایف دستاویزت کے مطاق چین پاکستان کا سب سے بڑا قرض دہندہ ہے جبکہ 85 ارب 48 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے مجموعی غیر ملکی قرض، حکومت اخراجات میں ایک چوتھائی سے کچھ زائد یعنی 21 ارب 35 کروڑ 90 لاکھ ڈالر چینی قرضہ ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کے اختتام تک پاکستان کو غیر ملکی قرض میں سے 37 ارب 35 کروڑ 90 لاکھ ڈالر واپس کرنے ہیں جس میں سے 40 فیصد یعنی 14 ارب 68 کروڑ 20 لاکھ ڈالر چین کو ادا کیے جائیں گے۔
اس طرح آئی ایم ایف پروگرام ختم ہونے تک چین سے کمرشل بنیاد پر لیا گیا قرض صفر تک لانا ہوگا جبکہ دو طرفہ بنیاد پر لیے گئے قرض 15 ارب 15 کروڑ 50 ارب ڈالر سے کم کر کے 7 ارب 94 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کرنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے 6 ارب ڈالر قرض کی منظوری دے دی
علاوہ ازیں حکومت نے ستمبر 2020 تک 7 سرکاری اداروں کی نجکاری کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے اس کے ساتھ ایک مکمل طریقہ کار بھی وضع کردیا گیا ہے کہ کون سے اداروں کی نجکاری کی جائے گی اور کن اداروں کو بہتر کیا جائے گا۔
حکام نے اس بات پر بھی رضا مندی کا اظہار کیا ہے کہ وہ ٹیکس نظام میں ترجیحی سہولیات اور ٹیکس استثنیٰ کو واپس لیں گے اور وقت کے ساتھ ٹیکس بیس کو بڑھایا جائے گا اور جنرل سیلز ٹیکس کو براڈ ویلیو ایڈڈ ٹیکس (وی اے ٹی) میں بدل دیا جائے گا۔
حکام نے بتایا کہ ادویات اور بنیادی خوراک کے علاوہ جنرل سیلز ٹیکس میں دیا گیا استثنیٰ مستقبل قریب میں واپس لے لیے جائے گا، جی ایس ٹی کے حوالے سے فائلنگ کے طریقہ کار کو آسان بنانے اور عملدرآمد پر اضافے کے لیے بین الصوبائی ہم آہنگی اور تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔