ایران یورینیم افزودگی کی حد سے تجاوز کر گیا
ایران نے 2015 کے جوہری معاہدے میں یورینیم افزودہ کرنے کی طے شدہ حد سے تجاوز کرلیا اور اس کے ساتھ ہی یورپ کو مزید اقدامات لینے سے خبردار کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ایران نے یہ اقدام واشنگٹن کی جانب سے عالمی قوتوں اور تہران سے طے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبرداری کو ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد لیا ہے۔
ایرانی جوہری توانائی کے ادارے کے ترجمان بہروز کمال وندی نے یورینیم افزودہ کرنےکی طے شدہ حد سے تجاوز کرنے اور اسے 4.5 فیصد کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: ایران کا 27 جون سے یورینیم افزودگی کی طے شدہ حد سے تجاوز کرنے کا اعلان
نیم سرکاری نیوز ایجنسی 'اسنا' کے مطابق بہروز کمال وندی نے کہا کہ ’یہ سطح ملک میں پاور پلانٹ کے ایندھن کی ضرورت کو مکمل طور پر پورا کرتی ہے‘۔
انہوں نے اس بات کا عندیہ دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران یورینیم افزودہ کرنے کی اس حد کو موجودہ وقت کے لیے برقرار رکھ سکتا ہے جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار سطح سے 90 فیصد کم ہے۔
دوسری جانب یورپی یونین کا کہنا ہے کہ وہ اس اقدام سے کافی تشویش میں مبتلا ہے اور ایران سے معاہدے کی تمام شرائط کی خلاف ورزی روکنے کا مطالبہ کیا۔
گزشتہ روز فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے تہران سے یورینیم افزودگی کی حد سے تجاوز نہ کرنے پر اصرار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: تہران کا یورینیم کا ذخیرہ 2015 کی طے شدہ حد سے تجاوز کرگیا،ایرانی میڈیا
تاہم ایرانی وزرات خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے کہا اگر یورپی ممالک عجیب اقدامات کرتے رہے تو ہم اگلے تمام اقدامات چھوڑ کر آخری قدم پر عملدرآمد کریں گے‘۔
انہوں نے حتمی اقدام سے متعلق کچھ نہیں بتایا لیکن ایران کے صدر حسن روحانی نے ماضی میں خبردار کیا تھا کہ تہران، جوہری معاہدے سے دستبردار ہوسکتا ہے۔
امریکا کی بدمعاشی
امریکی اسٹیٹ سیکریٹری مائیک پومپیو نے گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ایران مزید پابندیوں کا سامنا کرے گا۔
جوہری معاہدے کے دیگر فریقین چین اور روس نے امریکا کو ایران کے حالیہ اقدام کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
بیجنگ نے امریکا پر یک طرفہ بدمعاشی کا الزام عائد کیا ہے جبکہ ماسکو نے کہا کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے دستبرداری کے بعد افزودہ یورینیم کی حد سے تجاوز امریکی اقدام کا نتیجہ ہے۔
گزشتہ روز ایران نے ’چند گھنٹوں میں 2015 میں عالمی طاقتوں سے کیے گئے معاہدے کے تحت یورینیم افزودہ کرنے کی حد سے تجاوز کرنے کا اعلان کیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایران کا یورینیم افزودگی کی حد سے تجاوز کرنے کا نیا اعلان
ایرانی اٹامک ایجنسی کے ترجمان بہروز کمال وندی نے کہا تھا کہ نئی سطح پر یورنیم افزودہ کرنے سے متعلق تکنیکی تیاریاں چند گھنٹوں میں مکمل ہوجائیں گی اور 3.67 فیصد سے زیادہ یورینیم افزودہ کی جائے گی۔
نائب وزیر خارجہ عباس اراغچی نے کہا کہ تہران ہر 60 دن بعد معاہدے پر عمل درآمد سے واپسی کو جاری رکھے گا جب تک تمام فریقین امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں سے معاہدے کو بچانے کی کوشش نہیں کرتے۔
اس سے قبل یکم جولائی کو ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی 'فارس' کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تہران نے یورینیم کی افزودگی کی 2015 کے جوہری معاہدے میں طے کی گئی 300 کلوگرام کی حد پار کرلی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ ایران نے اعلان کیا تھا کہ 27 جون سے عالمی طاقتوں سے جوہری معاہدے میں یورینیم افزودگی کی طے شدہ حد سے تجاوز کر جائے گا۔
ایرانی جوہری توانائی ادارے کے ترجمان بہروز کمال وندی نے کہا تھا ’آج سے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کی 300 کلوگرام حد سے تجاوز کرنے کے لیے الٹی گنتی شروع کردی گئی ہے اور 10 دن میں ہم اس سے تجاوز کر جائیں گے‘۔
8 مئی کو ایرانی صدر حسن روحانی نے اعلان کیا تھا کہ تہران 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت افزودہ یورینیم اور بھاری پانی کے ذخائر سے متعلق پابندیوں سے دستبردار ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ اقدام گزشتہ برس امریکا کی جانب سے یکطرفہ دستبرداری کے جواب میں اٹھایا گیا ہے، جس کے بعد واشنگٹن نے تہران پر سخت معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران جتنی چاہے یورینیم افزودہ کرے گا، حسن روحانی
ایران نے 8 جولائی کے بعد مزید خلاف وزری کی دھمکی دی تھی کہ جب تک برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس امریکا کی جانب سے عائد کی گئی معاشی پابندیوں سے نمٹنے اور خاص طور پر تیل کی فروخت میں مدد نہیں کرتے۔
جوہری معاہدے کے تحت ایران نے کئی سال تک جوہری صلاحیت میں کمی پر اتفاق کیا تھا اور عالمی ماہرین کو بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی کے بدلے اپنی سرگرمیوں کی نگرانی کی اجازت دی تھی۔
معاہدے کے تحت ایران نے یورینیم کی افزودگی کی شرح 3.67 فیصد سے زائد نہ رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔
جوہری معاہدے کے تحت ایران سے افزودہ یورینیم اور بھاری پانی برآمد کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا تاکہ ملک کے ذخائر طے شدہ حد سے تجاوز نہ کریں، تاہم امریکی پابندیوں کی وجہ سے یہ برآمدات ناممکن ہوگئی ہیں۔