عالمی یوم آبادی: بڑھتی شرح پیدائش ہی انسان کے خاتمے کا سبب
دنیا کی آبادی پر نظر رکھنے والے عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا کی آبادی 7 ارب 57 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، دنیا کی آبادی میں پچھلے 4 سال میں 37 کروڑ افراد کا اضافہ دیکھنے میں آیا، کیوں کہ 2015 میں دنیا کی آبادی 7 ارب 20 کروڑ سے کچھ زائد تھی۔
اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی آبادی میں گزشتہ چند سال میں اضافے کا تناسب ایک اعشاریہ 2 فیصد رہا ہے، عالمی اداروں کے مطابق 1970 کے بعد کچھ سال ایسے بھی آئے جب دنیا کی آبادی میں واضح کمی بھی دیکھی گئی، تاہم جس طرح کا اضافہ 2015 سے 2019 کے درمیان نوٹ کیا گیا ہے اگر دنیا کی آبادی اسی تناسب یعنی 80 لاکھ افراد ہرسال بڑھتے رہے تو اندازے کے مطابق 2030 تک دنیا کی آبادی 8 ارب سے زائد ہوجائے گی۔
اگرچہ دنیا کے تمام خطوں میں آبادی میں اضافے کا تناسب یکساں نہیں ہے مگر اس اضافے نے ہر خطے میں ایک جیسے سماجی و معاشرتی مسائل کو جنم دیا ہے جن میں رہائش اور بنیادی ضروریات زندگی جیسے مسائل نمایاں ہیں اور ان مسائل میں پانی کی قلت، معیاری تعلیم سے محرومی، صحت اور ٹرانسپورٹ کی مشکلات جیسے مسائل قابلذکر ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا کے زیادہ آبادی والے 10 شہروں میں سے زیادہ تر ایشیا میں ہیں اور ان میں سے 5 بھارت اور چین کے شہر ہیں جن میں بیجنگ، شنگھائی، تیان جن، ممبئی اور دہلی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں 7 افراد کے لیے ایک چھت دستیاب
تاہم آبادی میں اضافے کے تناسب سے پاکستانی شہر کراچی بھی عالمی شہروں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے، جہاں تیزی سے ضروریات زندگی کے مسائل جنم لے رہے ہیں اور لوگوں کی بہت بڑی آبادی، صاف پانی، صحت، تعلیم، صفائی، روزگار اور ٹرانسپورٹ جیسے مسائل سے نبرد آزما ہے۔
یہاں کراچی سمیت دنیا کے ان شہروں کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے جو بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں۔
شنگھائی ۔ چین
چین کا شہر شنگھائی آبادی کے حوالے سے اس وقت دنیا کا گنجان ترین شہر ہے جس کی آبادی 2 کروڑ 14 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
گذشتہ 4 عشروں میں تیزی سے ہونے والی صنعتی ترقی نے جہاں شنگھائی کو دنیا میں ایک انڈسٹریل اسٹیٹ کا مقام عطا کیا ہے وہیں اس شہر کو ان فائدوں کے ساتھ ساتھ بڑے نقصانات بھی اٹھانا پڑے ہیں، یہ شہر کسی دور میں ہنگ پاؤ دریا کے کنارے آباد کیا گیا تھا مگر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث یہ خوبصورت دریا اب گھروں اور صنعتوں کے درمیان کہیں گم ہو گیا ہے، جس وجہ سے وہاں کے شہریوں کو پانی کی کمی کے علاوہ شدید فضائی آلودگی کا بھی سامنا ہے۔
شنگھائی کا شمار دنیا کہ ان شہروں میں کیا جاتا ہے جو فضا میں کاربن کی مقدار بڑھانے میں سرفہرست ہیں، رہائشی اور صنعتی تعمیرات میں بے پناہ اضافے سے یہاں کی فضا میں صرف گذشتہ 6 ماہ کے دوران 14 فیصد آلودہ مادوں کا اضافہ ہوا ہے جن میں زیادہ تر مضر صحت گرین ہاؤس گیسیں شامل ہیں۔
آلودگی میں اس قدر تیز اضافے کی ایک وجہ شنگھائی کی سڑکوں پر رواں ٹریفک کا اژدھام بھی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں سانس اور پھیپڑوں کے مرض بھی بڑھتے جا رہے ہیں، اگرچہ تیز تر ترقی کے باعث آبادی میں بے پناہ اضافے سے پیدا شدہ دیگر مسائل سے شنگھائیکی حکومت با آسانی نمٹ رہی ہے مگر فضائی آلودگی پر قابو پانا فی الوقت اس کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
کراچی ۔ پاکستان
صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی دنیا بھر میں آبادی میں اضافے کی فہرست میں شنگھائی اور بیجنگ کے بعد تیسرے نمبر پر ہے، اس شہر کو پاکستان کا معاشی گڑھ بھی کہا جاتا ہے اور کراچی اسٹاک ایکس چینج میں ہو نے والا معمولی سا اتار چڑھاؤ پورے ملک کی معیشت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
کراچی کی آبادی میں گزشتہ 10 سال میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے، سندھ کے دیہی علاقوں کے علاوہ پاکستان کے دوسرے شہروں سے بھی بہت بڑی تعداد میں لوگ بہتر روزگار کے لیے کراچی کی طرف نقل مکانی کرتے رہے ہیں، یہاں تقریبا پاکستان کے تمام صوبوں کے ہر بڑے شہر کے لوگ بستے ہیں، اور فی الوقت کراچی کی آبادی ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔
کراچی کو بحیرہ ارب کے کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے بھی پورے خطے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس کی بندرگاہیں پورٹ قاسم اور کراچی پورٹ سمندر کے راستے بین الاقوامی تجارت کا مرکز ہیں اور یہ شہر پاکستان کے کل جی ڈی پی کا 20 فیصد پیدا کرتا ہے۔
آبادی میں بے تحاشہ اضافے کے باعث اس شہر کو جن بنیادی مسائل کا سامنا ہے ان میں رہائشی مکانات، پانی کی قلت، فضائی آلودگی، ٹرانسپورٹ کی کمی، صحت کے منصوبوں کا فقدان، لاقانونیت اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت شامل ہیں۔
اربن پلاننگ کے فقدان کے باعث تیزی سے پھیلتے اس شہر کے مکینوں کی زندگی ٹریفک کے مسائل نے دو بھر کی ہوئی ہے اور شدید ٹریفک جام یہاں روز کا معمول بن چکا ہے، کئی سال سے مون سون سیزن میں بارشوں کی قلت کے باعث یہاں پانی کا بحران بھی سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے اور صحت کے منصوبے کی حالت بھی آبادی کے حوالے سے نامناسب ہے۔
ڈھاکہ ۔ بنگلہ دیش
بنگلہ دیش کا دارالحکومت ڈھاکہ 17رویں صدی سے سیاسی و معاشی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے اور یہ متعدد حکمرانوں کا دارالحکومت بھی رہ چکا ہے، 1971 میں پا کستان سے علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان میں رہائشی بنگالی افراد نے بڑے پیمانے پر ڈھاکہ ہجرت کی جس کے باعث اس کی آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا اور اس وقت دریاؤں سے گھرے اس شہر کی آبادی ایک کروڑ 45 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
گزشتہ 2 دہائیوں میں ڈھاکہ نے صنعتی و معاشی سطح پر بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے اور اب یہ خطے کی تجارت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، دنیا بھر میں شہری آبادی میں اضافے کے لحاظ سے ڈھاکہ اول نمبر ہے اور یہاں لوگ دریاؤں پر لکڑی کے چھوٹے ڈبے نما گھر بنا کر رہنے پر مجبور ہیں۔
رہائشی علاقوں میں کچرے اور انسانی فضلے کے اخراج کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے سے ڈھاکہ میں آبی آلودگی میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے اور صاف پانی کی قلت کے باعث لوگ گندا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں جس سے صحت پر مضر اثرات پڑتے ہیں۔
ہر جانب سے دریاؤں میں گھرے ہونے کے باعث ڈھاکہ کو مون سون سیزن میں بدترین ٹریفک مسائل کا سامنا بھی رہتا ہے جب کی شدید بارشوں کے دوران پوش علاقوں میں بھی سڑکیں 3 فٹ تک پانی میں ڈوبی ہوتی ہیں، سیاسی عدم استحکام کے باعث بھی یہاں کی حکومتیں ڈرینیج سسٹم بہتر کرنے سے قاصر رہی ہیں جس وجہ سے یہاں پر صحت کے مسائل انتہائی ابتر ہیں۔
ممبئی ۔ بھارت
بھارت کے شہر ممبئی کو بحیرہ ہند کے مغربی کنارے پر واقع ہونے کے باعث خطے کی تجارت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، جب کہ اس کی تاریخی حیثیت بھی مسلمہ ہے۔
بھارت کی فلم انڈسٹری کا گڑھ ہونے کے باعث گزشتہ 3 سے 3 دہائیوں میں اس شہر کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور اس وقت ممبئی کی آبادی ایک کروڑ 24 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔
اس شہر کو امیروں و غریبوں کا مشترکہ شہر بھی کہا جاتا ہے، یہاں بھارت کے سب سے زیادہ ارب اور کروڑ پتی افراد رہتے ہیں، مگر اس شہر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایک طرف پر شکوہ عمارتوں کا جال بچھا نظر آئے گا وہیں فٹ پاتھ، پائپوں اور جھگی نما گھر بھی نظر آئیں گے۔
اس شہر کے امیر لوگوں کی زندگی کا کوئی ثانی نہیں مگر کچی آبادیوں میں رہنے والے افراد غربت کی حد سے نیچے رہنے پر مجبور ہیں اور بمشکل دو وقت کی روٹی حاصل کر پاتے ہیں، ان لوگوں کو رہائش، صحت، تعلیم اور بہتر روزگار جیسی بنیادی سہولتیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ممبئی کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں کیا جاتا ہے جہاں فضائی آلودگی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور موسم سرما میں شدید سموگ کے باعث کئی دن تک نظام زندگی مفلوج رہنا اب روز کا معمول بن چکا ہے۔
ہانگ کانگ - چین کے ماتحت خود مختار شہر
ہانگ کانگ کا شمار دنیا کے جدید ترین شہروں میں کیا جاتا ہے جس کی آبادی 70 لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ کم رقبے پر زیادہ آبادی والے شہروں کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں ایک مربع کلومیٹر پر 1104 افراد آباد ہیں۔
ہانگ کانگ میں کثیر المنزلہ عمارتوں کا جال بچھا دیا گیا ہے اور زیادہ تر عمارتیں 70 منزلوں سے زائد منزلوں پر مشتمل ہیں مگر فلیٹوں کے کرایوں میں بے تحاشہ اضافے کے باعث یہاں ایک کمرے میں 10 یا اس سے زیادہ افراد رہنے پر مجبور ہیں۔
ہانگ کانگ گذشتہ کئی دہائیوں سے جرائم اور انڈر ورلڈ سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے اور اس وقت یہاں رہائش پزیر افراد کی زیادہ تر تعداد جرائم پیشہ افراد یا کسی نہ کسی طرح جرائم میں ملوث ہے، یہاں کی حکومت اس سنگین صورتحال سے نمٹنے سے قاصر ہے جس کی ایک وجہ سیاسی عدم استحکام بھی ہے۔
ہانگ کانگ ایک ایسے جدیید شہر کی منظر کشی کرتا ہے جہاں روزگار، پیسہ ، اور عیاشی سب کچھ دستیاب ہے مگر ذہنی سکون نہیں ہے اور سماجی و معاشرتی نظام تباہی کے دہانے پر ہے۔
لاہور ۔ پاکستان
لاہور پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب کا دارالحکومت ہے، صوبے کی آبادی میں اس تیزی سے اضافے کی وجہ صوبے بھر کے دیہی علاقوں سے تعلیم و روزگار کے لیے نوجوان لاہور آکر آباد ہوتے رہے ہیں، مگر صوبائی و مرکزی حکومتوں کی عدم توجہ اور ناقص اربن پلاننگ کے باعث اس شہر کو ٹرانسپورٹ کے علاوہ متعدد سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے جن میں سر فہرست صاف پانی کی قلت، غیر معیاری اور مضر صحت اشیائے خوردنی کی دستیابی اور فضائی آلودگی جیسے مسائل قابل ذکر ہیں، تاہم اس شہر کی حالات کراچی سے بہتر ہے۔
کسی دور میں لاہور کی پہچان کہلانے والا دریائے راوی سکڑ کر بہت ہی مختصر ہوچکا ہے اور بارشوں کی قلت کی وجہ سے لاہور کے اطراف میں بہنے والے دیگر دریا بھی آہستہ آہستہ خشک ہوتے جارہے ہیں جس وجہ سے یہاں پانی کا بحران شدید تر ہوگیا ہے۔
گرچہ پچھلی حکومت کی خصوصی توجہ اور میٹرو بس سروس کے باعث ٹریفک کے مسائل کسی حد تک کم ہو چکے ہیں مگر شہر کو جدید بنانے کے چکر میں پرانے لاہور کے ثقافتی ورثے کو بری طرح برباد کر دیا گیا ہے اور بے تحاشہ نئی تعمیرات کے باعث ان علاقوں میں ٹریفک جام اب بھی روز کا معمول ہیں۔
لاہور کے دیگر اہم مسائل میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی اور موسم سرما میں شدید سموگ قابل ذکر ہیں۔
لاس اینجلس - امریکا
لاس اینجلس دنیا کے گنجان آباد شہروں میں سے ایک ہے جس کی آبادی اس وقت ایک کروڑ 11 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جو 2010 میں محض 38 لاکھ تھی۔
اس جدید ترین شہر کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں مختلف ممالک کی شہریت رکھنے والے افراد آباد ہیں جو ایک طرف اسے مختلف ثقافتوں کا مرکز بناتا ہے مگر دوسری طرف اس سے کئی سنگین مسائل بھی جنم لے رہے ہیں کیونکہ یہاں رہائش پذیر افراد دوسری کمیونٹیز کے لیے اتنا کشادہ دل نہیں ہیں۔
امریکا اور دنیا کے دیگر خطوں سے لاس اینجلس کی جانب ہجرت سے یہاں جرائم کی شرح میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
اس کے ساتھ ہی آبادی میں تیزی سے اضافے کے باعث کچھ عرصے قبل لاس اینجلس میں ٹریفک کے مسائل سنگین صورتحال اختیار کر گئے تھے جن کے باعث یہاں رہائش پزیر افراد ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی امراض کا شکار ہو رہے تھے اور فضائی آلودگی میں بھی حد سے زیادہ اضافہ ہوگیا تھا، ان مسائل کے سد باب کے لیے یہاں کی حکومت نے ایک طرف کاروں اور بھاری گاڑیوں کے ٹریک کی تعداد میں نمایاں کمی کر کے پیدل چلنے والے افراد و سائیکل س سواروں کی حوصلہ افزائی کی تو دوسری طرف ریل کے نظام کو بہتر بنایا جس وجہ سے یہاں کی حالت کافی بہتر ہوئی۔
فیصل آباد ۔ پاکستان
فیصل آباد کا شمار پاکستان کے تیسرے گنجان آباد شہر میں کیا جاتا ہے جس کی آبادی اس وقت 25 لاکھ سے زائد ہو چکی ہے، گزشتہ دو دہائیوں میں یہاں تیزی سے صنعتوں اور فیکٹریوں کے قیام کے باعث آس پاس کے دیہی علاقوں اور ملک بھر سے لوگوں نے فیصل آباد کارخ کیا جس کے باعث یہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
فیصل آباد پاکستان کی ٹیکسٹا ئل انڈسٹری کا بھی مرکز ہے اور یہاں سے پاکستانی ملبوسات بڑے پیمانے پر دنیا بھر میں بھیجے جاتے ہیں، ذراعت و صنعت و حرفت کے علاوہ یہ شہر پاکستان کی معیشت میں بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، مگر آبادی میں تیزی سے اضافے کے باعث اس شہر کو کئی سنگین مسائل کا سامنا ہے جن میں سر فہرست فضائی آلودگی ہے۔
آبادی کے بیچوں بیچ کارخانے اور فیکٹریاں قائم کرنے کے باعث یہاں فضا میں کاربن کی شرح بہت بڑھ گئی جس سے سانس، پھیپڑوں اور دل کے امراض نے جنم لیا جب کہ گزشتہ کچھ عرصے میں یہاں کینسر میں بھی نمایاں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے یہاں دیگر موسمیاتی بیماریوں جیسے ٹائیفائڈ، ہیپاٹائٹس وغیرہ سے اموات کی شرح بھی بڑھ گئیں ہیں کیون کہ مسلسل آلودہ فضا میں سانس لینے سے بیماریوں کے خلاف جسم کا مدافعتی نظام کمزوور پڑ جاتا ہے۔
کوئٹہ ۔ پاکستان
کسی دور میں لٹل پیرس کے نام سے مشہور صوبہ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ اس وقت تاریخ کی بدترین ابتری کا شکار ہے، جس کی ایک بڑی وجہ یہاں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور اربن پلاننگ کا فقدان ہے۔
2017 کی مردم شماری کے مطابق اس وقت کوئٹہ کی آبادی 22 لاکھ 75 ہزار ہے جو صوبہ بلوچستان کی کل آبادی کا 26فیصد ہے جب کہ 19برس قبل 1998 میں کوئٹہ کی آبادی محض 4 لاکھ 22 ہزار تھی، یعنی 19 برسوں کے دوران اس کی آبادی میں 143 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو پاکستان کے دیگر صوبائی دارالحکومتوں حتی کے گنجان ترین کراچی سے بھی زیادہ ہے۔
کوئٹہ کی آبادی میں اس اضافے کی ایک بڑی وجہ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین اور ایران سے ہزارہ قبائل کی ہجرت ہے۔
اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کی رہائش کے لیے بغیر پلاننگ کے گھروں کی تعمیرات کی گئیں جس سے ایک جانب انفراسٹرکچر کے مسائل نے جنم لیا تو دوسری جانب یہ عمل آلودگی میں بھی اضافے کا سبب بننا اور اس وقت کوئٹہ کا شمار پاکستان کے آلودہ ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔
آبادی میں بے تہاشہ اضافے سے زیر زمین پانی کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہے اور شہریوں کو پانی کے سنگین بحران کا سامنا ہے، علاقے میں بڑے پیمانے پر موسمیاتی تبدیلیوں سے طویل و مختصر خشک سالی اب یہاں معمول بن چکی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کے گنجان آباد شہروں کے اس مختصر تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بے پناہ مسائل کے باوجود اب بھی انہی علاقوں میں رہائش کو ترجیح دے رہے ہیں جہاں انہیں مناسب روزگار با آسانی حاصل ہو سکے۔
اگرچہ ان علاقوں میں رہائشی معیار گر چکا ہے اور متوسط طبقے کو مناسب ضروریات زندگی بھی بمشکل حاصل ہوتی ہیں مگر روزگار کے لیے انہیں یہ مشکلات بھی گوارا ہیں اور وہ مشکلات کے باوجود صرف معاش کی وجہ سے سہولیات کے بغیر بدترین زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
صادقہ خان نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کیا ہے، وہ پاکستان کی کئی سائنس سوسائٹیز کی فعال رکن ہیں۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں