میشا شفیع جنسی ہراساں کیس : علی ظفر کا بیان قلمبند
گلوکار علی ظفر نے کہا ہے کہ میشا شفیع نے ان کے خلاف ' می ٹو تحریک' کا غلط استعمال کیا اور ان کے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں۔
علی ظفر نے یہ بیان میشاشفیع کے خلاف دائر کیے جانے والے ہتک عزت کیس کی سماعت کے دوران دیا۔
سیشن جج امجد علی شاہ نے علی ظفر کی جانب سے دائر کیے جانے والے مقدمے کی سماعت کی اور گلوکار نے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے زور دیا میشا شفیع کے بے بنیاد اور بے سروپا الزامات سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی۔
علی ظفر نے اس مقدمے میں اپنا بیان پیر کو ریکارڈ کرانا شروع کیا تھا مگر نامکمل ہونے پر سماعت بدھ تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔
آج سماعت کے دوران علی ظفر نے کہا کہ میشا شفیع کے الزامات کے نتیجے میں انہیں 40 کروڑ روپے تک کے نقصانات کا سامنا ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا نقصان گزشتہ سال ریلیز ہونے والی فلم طیفا ان ٹربل کے بزنس میں ہوا کیونکہ ان الزامات کے نتیجے میں ایک بڑے برانڈ نے اپنی ادائیگیاں مقدمے کے فیصلے تک کے لیے روک لیں۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ وہ می ٹو تحریک کی حمایت کرتے ہیں جس کا مقصد جنسی ہراساں اور تشدد کا خاتمہ کرنا ہے مگر 'میشا شفیع نے اس تحریک کا میرے خلاف غلط استعمال کیا اور ان کے الزامات میں کوئی وزن نہیں'۔
انہوں نے مزید کہا کہ میشا شفیع نے ہراساں کرنے کے الزامات سے قبل دیگر خواتین کے تعاون سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی تھی۔
گزشتہ سماعت کے دوران گلوکار نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ میشا شفیع نے انہیں بیٹل آف دی بینڈ سے الگ ہونے کا پیغام منیجر کے ہاتھ بھجوایا اور ساتھ ہی آگاہ کیا کہ وہ جیسے ہی ان پر جنسی ہراساں کا الزام لگائیں گی ان کے ساتھ دیگر خواتین بھی شامل ہوجائیں گی۔
عدالت نے علی ظفر کی جانب سے پیش کیے گئے پیپسی کے معاہدے کی دستاویز کو ریکارڈ کا حصہ بنادیا، جس میشا شفیع کے وکیل نے اعتراض بھی کیا، جس پر جج نے کہا کہ ان کا اعتراض بعد میں ریکارڈ پر لایا جائے گا۔
علی ظفر نے یہ بھی کہا کہ میشا شفیع نے ان کے خلاف مہم کے لیے 'جعلی سوشل میڈیا اکاﺅنٹس' بنائے اور اس حوالے سے انہوں نے عدالت میں مبینہ اکاﺅنٹس کی تفصیالت بھی پیش کیں۔
گلوکار نے بیان میں مزید کہا کہ ان پر جنسی ہراساں کا الزام عائد کرنے والی ایک خاتون کا کہنا تھا کہ علی ظفر نے انہیں جب ہراساں کیا جب وہ اے لیول کے طالبعلم تھے، تاہم وہ کبھی اے لیول کے طالبعلم نہیں رہے، بلکہ انٹرمیڈیٹ کیا، جس کا سرٹیفکیٹ بھی عدالت میں جمع کرایا گیا۔
انہوں نے امریکا میں ایک کنسرٹ کے دوران بیک اسٹیج ہراساں کرنے کے ایک الزام کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شوکت خانم ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے ان الزامات پر ٹوئٹر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ اس کنسرٹ میں کوئی بیک اسٹیج ہی نہیں تھا۔
گلوکار کا دعویٰ تھا کہ ان کے خلاف ہراساں کرنے کے الزامات عائد کرنے والی خواتین کا تعلق 'میشا شفیع اور ان کے نمائندے' سے ہے۔
انہوں نے مختلف بلاگرز اور سوشل میڈیا صارفین کے نام لیے جن کی جانب سے ان پر ہراساں کرنے کے الزامات میشا شفیع کے دعویٰ کے بعد سامنے آئے تھے۔
علی ظفر کا دعویٰ تھا کہ ان سب خواتین کا ایک دوسرے سے تعلق ہے ، اس حوالے سے میشا شفیع کے وکیل ثاقب جیلانی سے انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ سب خواتین عدالت میں پیش ہوں گی۔
جس پر ثاقب جیلانی نے کہا کہ وہ عدالت میں آئیں گی بلکہ دیگر متعدد خواتین بھی یہاں پیش ہوں گی'۔
علی ظفر کا مزید کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ میشا شفیع سے خاندان کے اراکین کی موجودگی میں ملتے تھے، جبکہ میشا کے شوہر 2015 میں ایک ایونٹ کے دوران ان کے ساتھ کام کررہے تھے، حالانکہ یہ وہ وقت ہے جو جس کے بارے میں میشا شفیع کا کہنا ہے کہ انہیں علی ظفر کی جانب سے ہراساں کیا گیا۔
علی ظفر کے مطابق میشا شفیع نے ہراساں کرنے کے مبینہ واقعے کے بعد بھی علی ظفر کے ساتھ اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیں۔
میشا شفیع- علی ظفر کیس
دونوں کے درمیان تنازع اپریل 2018 میں اس وقت سامنے آیا جب میشا شفیع نے علی ظفر پر ایک ٹوئٹ میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ علی ظفر نے انہیں ایسے وقت میں جنسی طور پر ہراساں کیا جب وہ 2 بچوں کی ماں اور معروف گلوکار بھی بن چکی تھیں۔
تاہم علی ظفر نے ان کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں اپنے خلاف سازش قرار دیا تھا۔
بعد ازاں میشا شفیع نے علی ظفر کے خلاف جنسی ہراساں کرنے کی محتسب اعلیٰ میں درخواست بھی دائر کی تھی اور اس کے جواب میں علی ظفر نے بھی گلوکارہ کے خلاف 100 کروڑ روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا۔
اور دونوں کا یہی کیس لاہور کی سیشن کورٹ میں زیر سماعت ہے اور لاہور ہائی کورٹ نے ماتحت عدالت کو تین ماہ کے اندر گواہوں پر جرح کے بعد فیصلہ سنانے کی ہدایت کر رکھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جنسی ہراساں کرنے کا الزام،علی ظفر نے میشا شفیع کو جھوٹاقرار دیدیا
چند دن قبل سماعت میں پیش ہونے کے بعد علی ظفر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایک بار پھر میشا شفیع کے الزامات کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ میشا شفیع نے انہیں منظم منصوبہ بندی کے تحت ٹارگٹ کیا۔
علی ظفر کی جانب سے میشا شفیع پر منظم منصوبہ بندی کے الزامات لگائے جانے کے بعد گلوکارہ نے علی ظفر کو 200 کروڑ ہرجانے کا نوٹس بھجوایا تھا اور ان سے 15 دن کے اندر معافی مانگنےکا مطالبہ کیا تھا۔
علاوہ ازیں میشا شفیع نے گواہوں سے جرح کے معاملے پر سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کی تھی، جس پر عدالت عظمیٰ نے 9 مئی کو لاہور ہائی کورٹ کے بیان ریکارڈ اور جرح ایک ساتھ کرنے کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی ۔
علاوہ ازیں میشا شفیع نے سیشن کورٹ میں سماعتیں کرنے والے پہلے جج پر جانبدار ہونے کا الزام لگایا تھا اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں جج تبدیل کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔
پہلے اس کیس کی سماعت سیشن جج شکیل احمد کرتے تھے جسے گلوکارہ کی درخوست پر تبدیل کیا گیا۔