اکثریت کے باوجود اپوزیشن چیئرمین سینیٹ کو تبدیل کرسکے گی؟
پارلیمانی سیاست کے تجربے سے ناآشنا صادق سنجرانی کو گزشتہ برس مارچ میں جب چیئرمین سینیٹ منتخب کرایا گیا، تو ان دنوں بلوچستان کے درد کا ڈھنڈورا عروج پر تھا، مگر سوا سال پورا ہونے کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے سیاسی و معاشی دکھوں کا مداوا تو ضرور ہوا، لیکن بلوچستان کے مسائل ناصرف وہیں رہے، بلکہ ان میں اضافہ ہوگیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کی ایک منتخب صوبائی حکومت کو ختم کرایا گیا اور آصف زرداری نے نئے منتخب وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو پر دست شفقت رکھا اور سینیٹ کے انتخابات میں 8 نئے آزاد سینیٹر منتخب کرائے، جنہوں نے بعد میں اپنی سیاسی جماعت بنائی۔ جسے بلوچستان عوامی پارٹی کا نام دیا گیا۔
اب آصف زرداری سوا سال پہلے منتخب کرائے گئے اپنے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو تبدیل کرانا چاہتے ہیں۔ سوا سال پہلے انہوں نے پارٹی کی شدید مخالفت کے باوجود ایک غیر مقبول فیصلہ کیا تھا، لیکن اب جو وہ فیصلہ کرنے جارہے ہیں اس میں ان کی کامیابی کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ اس بار بھی ان کی نیت سیاسی نظام کو استحکام بخشنے کے بجائے خود کو ریلیف دلانا ہے۔
سینیٹ میں موجودہ پارٹی پوزیشن جانچنے سے پہلے ہمیں سوا سال پیچھے جانا ہوگا تاکہ ہمیں اندازہ ہوسکے کہ ان دنوں سینیٹ چیئرمین کے انتخابات میں بلوچستان سے چیئرمین بنانے کی خواہش کے پس پردہ کون سے محرکات تھے۔ کیونکہ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سینیٹ چیئرمین بنانے کے لیے نواز شریف نے خود رضا ربانی کا نام پیش کیا تھا مگر پاکستانی سیاست میں بادشاہ گر کہلوانے والے آصف زرداری نے ناصرف یہ آفر ٹھکرادی بلکہ انہوں نے اپنے ووٹ بھی بلوچستان سے آزاد منتخب ہوکر آنے والے سینیٹروں کی جھولی میں ڈال دیے تھے۔
ایک دوسرے کے شدید مخالف پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے تھے، اور نواز شریف کی رضاربانی کو دوبارہ چیئرمین سینیٹ بنانے کی تجویز کے سب سے بڑے مخالف خود آصف زرداری تھے، کیونکہ رضاربانی وہ تقاضے پورے نہ کرسکے جو آصف زرداری چاہتے تھے۔
سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کے لیے مسلم لیگ (ن) کے خلاف جب یہ اتحاد قائم ہوا تو اندازہ تھا کہ 3 یا 4 ووٹوں کا فرق ہوگا، لیکن صادق سنجرانی 11 ووٹوں کے بڑے فرق سے حکومتی اتحاد کے امیدوار راجا ظفرالحق کو شکست دے کر چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے۔ یہ جیت کس کی تھی؟ آصف زرداری خوب جانتے تھے، اور آپ کو بھی یاد ہوگا کہ گزشتہ سال اپریل سے آصف زرداری نیب کے ہاتھوں اپنی ممکنہ گرفتاری کو ٹالتے ٹالتے کامیابی سے سوا سال نکال ہی گئے۔
اب جب وہ گرفتار ہوگئے ہیں تو شاید وہ ایک بار پھر سودے بازی کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ اس میں کس قدر کامیاب ہوتے ہیں، اس بارے میں ان کی اپنی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کو بھی کم یقین ہے۔
اس وقت بظاہر سینیٹ میں حکومت اور ان کی اتحادی جماعتوں کے پاس 38 اور متحدہ اپوزیشن کے پاس 66 ووٹ ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کی جماعتوں میں پیپلزپارٹی کے پاس 21، (ن) لیگ 31، نیشنل پارٹی 5، عوامی نیشنل پارٹی ایک، جماعت اسلامی 2، جمعیت علمائے اسلام (ف) 4 اور پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کی 2 نشستیں ہیں۔
اسی طرح حکومتی اتحاد کے پاس تحریک انصاف کی 14، بلوچستان عوامی پارٹی کی 8، فاٹا 8، متحدہ قومی موومنٹ کی 5، فنکشنل لیگ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی ایک، ایک نشستیں ہیں۔ بظاہر اعداد و شمار واضح ہیں کہ اگر اپوزیشن متحد ہو تو موجودہ چیئرمین سینیٹ کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
ملک کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں یہ بات واضح ہے کہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کے فیصلے میں بظاہر تو پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کا کردار تھا، لیکن اس فیصلے پر عملدرآمد کرانے کے پیچھے کون تھا اس بارے میں بھی سبھی جانتے ہیں۔ موجودہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا پہلا مطالبہ اے این پی کی طرف سے آیا تھا، اس کے بعد یہ معاملہ باضابطہ طور پر اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں لایا گیا، اس سلسلے میں ایک رہبر کمیٹی بنائی گئی ہے تاکہ وہ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی اور حکومت کے خلاف آنے والے دنوں میں تحریک چلانے کی حکمت عملی طے کرسکے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹ کے اندر موجود رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد اب چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی حامی نظر نہیں آتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے گزشتہ برس ملکر ان کی بلوچستان کی صوبائی حکومت ہٹائی اور اس کے بعد انہوں نے ایک ایسے غیر معروف شخص کو سینیٹ چیئرمین بنوایا جس کے پیچھے ان کی اپنی بھی نہیں بلکہ کسی اور کی مرضی شامل تھی، اور اب آصف زرداری انہیں ہٹوانے کی اس لیے کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ اس کوشش کے ذریعے اپنے لیے کوئی ریلیف حاصل کرسکیں۔
’ہم زرداری صاحب کے ریلیف کے لیے اپنا کاندھا استعمال کیوں کریں؟ ویسے بھی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتا ہے، اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہماری جماعت سمیت دیگر جماعتوں کے ارکان ہی ہمارے امیدوار کو ووٹ دیں، اگر شکست کھاگئے تو اس کا نقصان صرف ہمیں یا دیگر جماعتوں کو ہی نہیں سیاسی کلچر کو بھی ہوگا، اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ ہماری قیادت صادق سنجرانی کو ہٹانے کے لیے فوری فیصلہ کرے‘، (ن) لیگ کے ایک اہم رہنما مجھے بتارہے تھے۔
سینیٹ چیئرمین کو ہٹانے کے سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کو اگر ان کی اتحادی جماعتیں قائل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہیں تو اکثریت کی بنیاد پر چیئرمین کے عہدے کے امیدوار پر (ن) لیگ کا حق ہوگا، جبکہ دوسری بڑی جماعت پیپلزپارٹی ہے، جسے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ ملنا ہے۔ اس ساری سرگرمی میں پیپلزپارٹی کو تو کچھ بھی نہیں مل رہا، کیونکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا عہدہ پہلے ہی اس کے پاس ہے۔ رہی جے یو آئی (ف) کی، جسے اس وقت اقتدار کی شدت سے ضرورت ہے، تو اسے نمبر گیم کے حساب سے بھی کچھ نہیں مل سکے گا۔ اس لیے پیپلزپارٹی مقتدر قوتوں کو ناراض کرکے بے فائدہ سرگرمی کیوں کرے گی؟ یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کہ پیپلزپارٹی آصف زرداری کے لیے کچھ ریلیف چاہتی ہے اور حکومت ایسے کسی موڈ میں نہیں۔ لیکن پیپلزپارٹی اب بھی یہی سوچ رہی ہے کہ مقتدر قوتوں سے سودے بازی کے نتیجے میں شاید کچھ حد تک ریلیف مل جائے۔
‘آپ نے پچھلے سال مارچ میں خود صادق سنجرانی کو چیئرمین منتخب کرایا تھا، اب ان کو ہٹانا چاہتے ہیں، کیا آپ کل غلط تھے یا آج؟‘
’بلوچستان کے مسائل بہت سنگین تھے، ہم سمجھ رہے تھے کہ صادق سنجرانی ان مسائل میں کمی کے لیے کوئی کردار ادا کرے گا، لیکن وہ خود بھی دورے کرتا رہا اور دوسروں کو بھی گھماتا رہا’، آصف زرداری میرے سوال کا جواب دے رہے تھے۔
گزشتہ برس سینیٹ چیئرمین کے انتخاب پر پیپلزپارٹی کے کردار پر اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی اکثریت اس فیصلے کو اپنے لیے ملامت سمجھتی ہے، لیکن پارٹی ضوابط کی رکاوٹوں کی وجہ سے کھلے بندوں اس پر اظہار کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔
سینیٹ چیئرمین کے خلاف ممکنہ عدم اعتماد کی کوششوں کو روکنے کے لیے حکومت نے بھی محاذ کھول دیا ہے۔ اپنا پہلا نئے مالی سال کا بجٹ پاس کرانے میں حکومت کامیاب ہوچکی ہے۔ اپوزیشن کے شدید دباؤ کے باعث حکومت کو اپنے اتحادیوں کے نخروں کا بھی سامنا کرنا پڑا، نتیجے میں کچھ وزارتیں اور فنڈز دینے کے وعدے بھی کرنے پڑے۔
حکومت نے اپوزیشن کی اے پی سی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے قومی اور پنجاب اسمبلی کے ارکان سے رابطوں کا آغاز کیا۔ جس دن بجٹ پیش ہوا، اسی دن وزیرِاعظم نے ن لیگ کے ارکان سے ملاقات کی اور یہ خبر بھی حکومت کی طرف سے جاری کرائی گئی، تاکہ اسے بتایا جائے کہ ‘زیادہ آگے بڑھنے سے گریز کیا جائے‘۔
لیکن اگر حکومت مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی کے ارکان کی حمایت حاصل کر بھی لے تو ایوان میں یہ حمایت کسی کام نہیں آسکے گی، کیونکہ آئینی طور پر اگر کسی رکن نے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا تو وہ اہل نہیں رہے گا۔
اس پوری صورتحال کو سمجھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے دن اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومت کے لیے بھی کتنے مشکل اور اہم دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ دن سودے بازی کے دن ہیں اور کون اس میں کامیاب ہوگا اور کون ناکام، اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں