تہران کا یورینیم کا ذخیرہ 2015 کی طے شدہ حد سے تجاوز کرگیا،ایرانی میڈیا
ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی 'فارس' کی رپورٹ میں کہا گیا کہ تہران نے یورینیم کی افزودگی کی 2015 کے جوہری معاہدے میں طے کی گئی 300 کلوگرام کی حد پار کرلی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'اے پی' کے مطابق 'فارس' نے اپنی رپورٹ میں نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اقوام متحدہ کے انسپکٹرز نے حال ہی میں ایران کے کم حساس یورینیم کے ذخیرے کا وزن کیا۔
ایران نے حال ہی میں کم حساس یورینیم کی پیداوار کو چار گنا کر کے جوہری معاہدے کی شرائط میں سے ایک کی خلاف ورزی کی تھی۔
ایران نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اگر عالمی طاقتیں، امریکا کے معاہدے سے الگ ہونے اور تہران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے بعد معاہدے کی نئی شرائط کے حوالے سے مذاکرات میں ناکام ہوتی ہیں تو وہ جولائی کے آخر تک اپنے یورینیم کے ذخائر کو ہتھیاروں کی تیاری کے لیے ضروری سطح کے قریب لے جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ویانا اجلاس جوہری معاہدہ بچانے کا آخری موقع ہے، ایران
یورپی ممالک نے امریکا کے معاہدے سے الگ ہونے کی مخالفت کرتے ہوئے ایران پر زور دیا تھا کہ وہ معاہدے کی پاسداری جاری رکھے۔
تاریخی جوہری معاہدے کو ایسے وقت میں پیچیدہ صورتحال سے نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے جب خلیج فارس میں کشیدگی شدت اختیار کر چکی ہے جبکہ ایران کی جانب سے گزشتہ ماہ امریکی ڈرون گرانے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
ڈرون گرانے کے واقعے کے حوالے سے امریکا کا کہنا تھا کہ ڈرون کو بین الاقوامی فضائی حدود میں گرایا گیا، جبکہ ایران کا اصرار ہے کہ ڈورن کو اس کی حدود میں آنے پر تباہ کیا گیا۔
امریکا اور ایران کے درمیان تنازع اس وقت پیدا ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا اور تہران پر، خطے کے حوالے سے اس کی پالیسی تبدیل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی پالیسی اپنائی۔
مزید پڑھیں: ’تمام فریق جوہری معاہدے پرعمل کریںِ، ایران تنہا جڑا نہیں رہ سکتا‘
تاہم ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک غیر ملکی دباؤ کے آگے سر نہیں جھکائے گا۔
انہوں نے جوہری معاہدے کا حوالہ دیئے بغیر کہا کہ 'آج، ایران کو مقامی پیداوار اور امکانات پر انحصار کرتے ہوئے امریکا کی اقتصادی پابندیوں کے خلاف کھڑا ہونا ہے۔'