• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

بجٹ عوام دوست، مگر نادان دوست

شائع June 28, 2019

بجٹ آگیا! اب آپ کہیں گے کہ بجٹ ہم ہی پر آکر گرا ہے اور یہ ہمیں یوں بتا رہا ہے جیسے خبر دے رہا ہو۔

نہیں صاحب ایسا نہیں، یوں سمجھیں ہم نے ویسا ہی بین کیا ہے جیسے کوئی میت ہوتے ہی لواحقین کرتے ہیں ’ارے ابّا چلے گئے ے ے ے ے‘۔ یہاں اہل خانہ، اہل محلہ اور خود ابّا مرحوم کو بتانا مقصود نہیں ہوتا کہ وہ وفات پاچکے ہیں، بلکہ غم کا بے ساختہ اظہار ہوتا ہے، سو ہم نے بھی یہی کیا ہے۔ یعنی ہمارے فقرے کو یوں پڑھا جائے ’ہائے بجٹ آگیااااااا‘، ’ارے کیوں آگیااااا۔‘

چلیں اب تو آہی گیا، آنے والے کو کہاں روک سکا ہے کوئی۔

اس بار کا بجٹ بہت مختلف ہے۔ ہر بجٹ کے لیے تیاریاں کی جاتی ہیں، مگر اس کی خاطر گرفتاریاں کی گئیں۔ ہر بجٹ کے بعد مہنگائی کا ’مولاجٹ‘ آتا ہے، اس مرتبہ ’کپتان‘ اور ان کی ٹیم نے بجٹ سے پہلے ہی گرانی کا ’وارم اپ میچ‘ کرادیا، تاکہ عوام مہنگائی کے عادی ہوجائیں اور ان کی اتنی چیخیں نکل جائیں کہ بجٹ آنے کے بعد نکلنے کے لیے صرف آہ اور کراہ بچے۔

ہر بار بجٹ تقریر ہی کافی ہوتی ہے، لیکن اس بار عوام کو رُلانے کے لیے بجٹ تقریر کی گئی پھر انہیں منانے، رجھانے، بنانے اور خاص طور پر ہنسانے کے لیے وزیرِاعظم نے تقریر کی۔

یہ تاریخی خطاب تھا، ایک تو اس لیے کہ ہماری تاریخ میں پہلی بار بجٹ تقریر کے اثرات زائل کرنے کے لیے ایک اور تقریر ہوئی، بالکل اسی طرح جیسے پشتو فلموں میں ایک درجن افراد کے قتل کے ہر منظر کے بعد ایک گانا ہوتا ہے جو پچھلے منظر سے بھی زیادہ خوفناک ہوتا ہے۔ دوسرے یہ تاریخ کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے باعث بھی تاریخی خطاب تھا۔

حکومت کے مخالفین کچھ بھی کہیں، لیکن ہمارے نزدیک تو یہ بہت اچھا اور عوام دوست بجٹ ہے۔ یہ الگ بات کہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا، اور بعض اوقات تیر کھانے کے بعد مُڑ کر دیکھو تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوجاتی ہے جو زخمی کی ’ہائے‘ کا جواب ہاتھ ہلا اور ہائے (HI) کہہ کر دیتے ہیں، لہٰذا اس بجٹ کو نادان دوست بھی کہا جاسکتا ہے لیکن بہرحال ہے عوام دوست۔

لوگوں کو اعتراض ہے کہ حکومت نے چینی کے نرخ بڑھا دیے ہیں، بھئی جب میٹھا میٹھا ہپ ہپ کرتے ہیں تو اب کڑوا کڑوا تھوتھو نہ کریں۔ ہمارے خیال میں یہ نرخ اس لیے بڑھائے گئے ہیں کہ ملک میں چینی کی بدترین قلت ہے اس فیصلے کا کسی اور ’ترین‘ سے کوئی تعلق نہیں۔

اس قلت کی 2 وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب موجودہ حکومت آئی تو لوگ مہینوں مٹھائیاں بانٹتے اور ایک دوسرے کا منہ میٹھا کراتے رہے، خوشی منانے کا یہ سلسلہ رُکا تو حکومت کی کارکردگی نے عوام کا منہ یوں کڑوا کیا کہ وہ دن بھر میٹھا کھانے پر مجبور ہوگئے، اگر ایسا نہ کرتے تو جو کڑواہٹ منہ سے باہر آتی اس سے حسب ہدایت ملک کی مثبت تصویر کے برعکس ناک سکیڑ کر ’اونہوں‘ کرتی تصویر سامنے آتی۔

اسی طرح گھی کے نرخ بھی اس لیے بڑھانے پڑے کہ ملک میں گھی کی کمی ہوگئی ہے۔ چونکہ تحریک انصاف کی انتخابات میں کامیابی کا گھی ٹیڑھی انگلی سے نکالا گیا تھا اور پھر انگلی بھی امپائر کی تھی۔ اب چونکہ امپائر سیدھی انگلی دکھانے کا عادی ہے اسے انگلی ٹیڑھی کرنے کی عادت نہیں، سو ٹیڑھی انگلی سے نکالتے ہوئے بہت سا گھی ضائع ہوگیا۔ پھر جب نئی حکومت آئی تو ملک بھر میں گھر گھر گھی کے چراغ جلائے گئے۔ ان دنوں ’کہیں دیپ جلے کہیں دل‘ کا منظر تھا اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اس چراغاں میں ٹَنوں کے حساب سے گھی کام آگیا۔ حکومت کے معاشی اقدامات کے باعث عوام کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے، انگلیاں پڑنے کی وجہ سے ناپاک ہوجانے والا گھی کسی کام کا نہیں رہا، سو گھی کی قلت ہوگئی۔

جہاں تک گوشت کے دام بڑھنے کا تعلق ہے تو اس کا غریب آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ بلّی اور پاکستان کے غریب آدمی کو تو اب خواب میں بھی چھیچھڑے ہی نظر آتے ہیں۔ بلّی خوش نصیب ہے کہ اس کے بھاگوں کبھی کبھی چھینکا ٹوٹ جاتا ہے، غریب کے سر پر تو مسلسل قیامت ہی ٹوٹ رہی ہے۔

غریب اب صرف قربانی ہی کا گوشت کھاسکتے ہیں، مگر وہ بھی ہر قربانی کے بکرے کا نہیں، خاص طور پر ان بکروں کا جنہیں ’وعدہ نبھانے‘، حکومتی کارکردگی سے توجہ ہٹانے اور حکومت کو مشکلات سے بچانے کے لیے قربان کیا گیا اور کیا جارہا ہے، کیونکہ ایک تو ان کی کھال بہت موٹی ہے لہٰذا اترے گی ہی نہیں، دوسرے یہ اتنے ’بڑے‘ ہیں کہ ان کا گوشت گلنے کا نہیں۔

بجٹ میں سیمنٹ، اینٹوں اور سریے کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں، بالکل صحیح بڑھی ہیں۔ بتاو بھلا، جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے لوگ دھڑا دھڑ مکان بنائے اور اپنے گھروں میں توسیع کیے جارہے ہیں۔

ہوا یہ ہے کہ حکومت نے لوگوں کو اتنی خوشیاں دی ہیں کہ وہ خوشی سے پھولے نہیں سمارہے، پھولتے پھولتے اتنا پھول گئے ہیں کہ ان کے گھر ان کے لیے چھوٹے پڑگئے اور وہ بالکل اسی طرح اپنے گھروں میں پھنس گئے جس طرح بعض لوگ ’شیروانی‘ میں پھنس جاتے ہیں، بس پھر کیا تھا، تعمیر اور وسعت کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ ملک سیمنٹ، اینٹوں اور سریے کی شدید کمی کا شکار ہوگیا۔ اس صورت حال میں ان اشیا کی قیمتیں بڑھا کر حکومت نے نہایت دانش مندی کا ثبوت دیا ہے۔

رہی کاسمیٹکس مہنگی ہونے کی بات، تو ہم اس راز سے پردہ اٹھادیں کہ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد پاکستانی خواتین نے کاسمیٹکس کا استعمال ترک کردیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ ہمہ وقت روتی رہتی ہیں، ادھر میک کیا اور ادھر آنسوؤں نے دھو ڈالا۔ خواتین کیوں روتی ہیں؟ اس کا سبب سامنے نہیں آیا، ہمارے خیال میں یہ خوشی اور شکرانے کے آنسو ہیں جو تھم کے نہیں دے رہے۔

اچھا اب ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت نے اشیا کی قیمتیں صرف بڑھائی ہیں، نہیں بھائی نہیں، کم بھی تو کی ہیں، جیسے بیکری اشیا اور ریسٹوینٹس میں ٹیکس پر کمی کی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اے پیارے عوام! اگر مہنگائی کی وجہ سے کھانا پکانے کے لالے پڑگئے ہیں تو کوئی بات نہیں بیکری سے لاکے کھاو یا ریسٹورینٹس میں جاکے کھائو، مگر بات سنو گھبرانا نہیں ہے، میں ہوں ناں۔

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024