کیا رضا باقر بطورِ گورنر اسٹیٹ بینک اپنی مدت پوری کرپائیں گے؟
اتوار کا دن تھا۔ فیملی کے ساتھ خوشگوار وقت گزر رہا تھا اور بچوں کا کھلونا بنا ہوا تھا۔ ایسے میں موبائل فون کی گھنٹی جس پر اسٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر صاحب کا نام چمک رہا تھا۔
سوچا کہیں اسٹیٹ بینک نے چھٹی کے دن تو کوئی کھڑاک نہیں کردیا جیسا کہ ڈاکٹر شمشاد اختر کے ادوار میں ہوتا رہا ہے۔ کال اٹھانے پر عابد قمر صاحب معذرت خوانہ لہجے میں گویا ہوئے کہ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر میڈیا بریفنگ دینا چاہتے ہیں اور شام 5 بجے کا وقت طے ہوا ہے۔
ذہن میں یہ خیال ابھرا کہ معیشت کے بارے میں پالیسی بیان کا اجراء ہو سکتا ہے تاکہ معیشت پر چھائی دھند چھٹے اور اعتماد کی فضا بحال ہو۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ معیشت کے حوالے سے یہ فضا قائم بھی خود حکومتی معاشی ٹیم نے کی ہے۔ محض سابقہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے معیشت پر اتنا کچھ منفی کہا گیا کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد مکمل طور پر ختم ہوگیا، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج مقامی سرمایہ کاری اور طلب میں کمی ہے۔
میڈیا بریفنگ کے لیے پہنچے تو اسٹیٹ بینک نے پہلے چائے پیش کی اور اس دوران باقر رضا آگئے، اس استقبالی چائے کا مقصد غیر رسمی بات چیت کرنا اور برف کو پگھلانا تھا۔ رضا باقر انتہائی دھیمے انداز میں ٹھہر ٹھہر کر صاف اور شستہ اردو میں گفتگو کرتے رہے۔ ان کی اردو سلیس ہے مگر کہیں کہیں لاہوری لب ولہجہ بھی جھلکتا ہے۔
رضا باقر اس بات پر پریشان تھے کہ معیشت کے حوالے سے میڈیا پر جو بحث ہوتی ہے وہ حقائق سے کافی پرے ہے، اگر ضرورت محسوس ہوئی تو صحافیوں کو معیشت کے حوالے سے تربیت بھی دی جائے گی۔ اب کیا بتاتے کہ شام 7 سے رات 11 تک ٹی وی پر نظر آنے والے اکثر اینکرز خود کو عقل کُل سمجھتے ہیں، انہیں سیکھانا تو ان کی شان میں گستاخی کے مترادف ہوگا۔
چائے کے بعد میڈیا بریفنگ شروع ہوئی جسے رضا باقر نے مختلف حصوں میں تقسم کیا تھا۔ بریفنگ میں معیشت کی موجودہ صورتحال، ایکسچینج ریٹ، مالیاتی خسارہ، بنیادی شرح سود، مہنگائی کے موضوعات کو شامل کیا گیا جبکہ صحافیوں کے سوالات پر رضا باقر ذاتی نوعیت کی وضاحتیں بھی دیتے رہے۔
گفتگو کے آغاز میں رضا باقر نے خوشخبری سنائی کے پاکستانی معیشت کو جو مسائل درپیش تھے وہ حل کرلیے گئے ہیں اور اب معیشت میں بہتری آرہی ہے۔ جس سے غریب اور متوسط طبقے کو فائدہ ہوگا۔ ان کے مطابق یہ سب کچھ موجودہ حکومت کی معاشی ٹیم کے اقدامات کی بدولت ہوا ہے۔
رضا باقر نے بنیادی شرح سود کے بڑھنے اور روپے کی قدر میں کمی کو بھی معیشت کی بہتری قرار دیا۔ تاہم جب صحافیوں نے ان سے یہ جاننا چاہا کہ متوسط طبقے کو کیسے فائدہ پہنچ رہا ہے؟ دوسری طرف بجلی گیس، چینی، تیل سمیت تقریباً ہر چیز مہنگی ہورہی ہے تو وہ اس کا جواب دینے سے قاصر رہے۔
رضا باقر نے کہا کہ مرکزی بینک کے 3 اہم کام ہوتے ہیں۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنا، ملک کے مالیاتی نظام کو مستحکم کرنا (ایکسچینج ریٹ پالیسی شامل نہیں) اور معاشی شرح نمو کے معاملات سنبھالنا، اسٹیٹ بینک انہی کے حوالے سے اسٹیٹ بینک اقدامات کررہا ہے۔
مالیاتی خسارہ
گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ حکومت کا مالیاتی خسارہ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ سماجی شعبے پر سرمایہ کاری کرنے کی صلاحیت مکمل طور پر ختم ہوگئی تھی، کیونکہ جس رقم کو سماجی شعبے پر خرچ کرنا ہوتا تھا اس کو سود کی ادائیگی پر خرچ کردیا جاتا ہے۔ معاشی ٹیم ایک قابل بھروسہ طریقہ سے مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
اگراعداد وشمار پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان پر اس وقت مقامی قرضوں کا بوجھ 35 ہزار ارب روپے ہے جبکہ غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 100 ارب ڈالر ہے مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ7 ہزار ارب روپے کے وفاقی بجٹ میں قرض پر سود کی ادائیگی کے لیے 3 ہزار ارب روپے خرچ کرنا ہوں گے۔ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کی وجہ سے سود ادائیگیوں میں اضافے پر آگے چل کر بات ہوگی۔
روپے کی شرح مبادلہ یا ایکس چینج ریٹ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آنے کے بعد روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ہوئی ہے اور ایک ڈالر جو کہ حکومت کے قیام کے وقت 122روپے کا تھا اب 157روپے تک گر چکا ہے، جبکہ بعض کارپوریٹس اور کاروباری ادارے ڈالر کی قیمت 170سے 180 روپے تک پہنچنے کی پیش گوئی کررہے ہیں۔
اس حوالے سے گورنر اسٹیٹ بینک نے سابقہ حکومت کا نام لیے بغیر روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ طویل عرصے تک ایکسچینج ریٹ کو ایک جگہ مستحکم رکھا گیا جس کی وجہ سے برآمدات اپنی جگہ مستحکم رہیں جبکہ درآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا جس نے پاکستان کے تجارتی خسارے کو خطرناک حد تک بڑھا دیا۔ دوسری طرف روپے کی قدر نامناسب ہونے کی وجہ سے زرِمبادلہ ذخائر میں بھی کمی ہوئی۔
گورنر اسٹیٹ بینک کی یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ اسحاق ڈار نے ایکسچینج ریٹ کو ایک جگہ مستحکم رکھنے کی پالیسی اپنائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک ریاض ریاض الدین نے اس کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی تو اس پر وزیر خزانہ نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور فوری طور پر طارق باجوہ کو گورنر اسٹیٹ بینک تعینات کروادیا۔ اسحاق ڈار کے مطابق ایکسچینج ریٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ ‘Mother of all evil‘
رضا باقر کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کو قابو میں کرنے کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک ایکسچینج ریٹ کو اس کی اصل جگہ پر لارہی ہے۔ جس سے بیرونی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
اس پر ایک رپورٹر نے سوال کیا کہ اگر درآمدات کی حوصلہ شکنی ہی کرنی تھی تو اس کو کسٹم اور ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے سے کنٹرول کیا جاسکتا تھا۔ اس سوال کو مکمل طور پر رد نہ کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ڈیوٹی عائد کرنے سے اسمگلنگ میں اضافہ ہوجاتا ہے یعنی وہ یہ بات تسلیم کررہے ہیں کسٹم حکام اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہے ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا ایکسچینج ریٹ میں تبدیلی سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم ہوجائے گا، رضا باقر نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کبھی صفر نہیں ہوتا یہ مثبت یا منفی ہوتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کا مقصد اس کو مکمل طور پر ختم کرنا نہیں ہے بلکہ اس سطح پر لانا ہے جہاں یہ آسانی سے فنانس کیا جاسکے۔
یہ بات کم از کم مجھے تو ہضم نہیں ہوئی۔ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو ختم نہیں کرنا تھا اور اس کو قرض لے کر ہی پورا کرنا تھا تو پھر اتنا واویلا کیوں مچایا گیا کہ معیشت کا بیڑا غرق ہوگیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت اس خسارے کو کم کرکے بھی قرض سے پورا کرے گی مگر اس اقدام سے ترقی رُک گئی ہے۔ تو ایسے میں جب ترقی ہورہی ہو تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بھی پورا کرنے کے لیے سابقہ حکومت کے پاس کوئی نہ کوئی پالیسی ہوگی کیونکہ اسحاق ڈار اور مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی بڑی وجہ بجلی پیدا کرنے والی مشینری کی درآمد ہے۔ بجلی کی پیداوار سے معیشت کا پہیہ چلے گا۔
صنعتیں ایکسپورٹر سرپلس پیدا کریں گی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کیا جاسکے گا۔
گورنر اسٹیٹ بینک کا دعوی تھا کہ ایکسچینج ریٹ کو کم کرنے سے بیرونی خسارے پر اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ تجارتی خسارے میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔ درآمدات میں کمی ہورہی ہے جبکہ برآمدات میں اضافہ ہورہا ہے مگر ابھی یہ تبدیلی بہت نمایاں نہیں ہے کیونکہ برآمدات میں اضافہ قیمت میں نہیں بلکہ مقدار میں ہوا ہے۔
رضا باقر موجودہ حکومت کی مالیاتی پالیسی پر نام لیے بغیر تنقید کر گئے کہ حکومت کی جانب سے اضافہ اس وجہ سے بھی ہوا کہ حکومت نے بینکوں کے بجائے اسٹیٹ بینک سے بڑے پیمانے پر قرض لیا جس کی وجہ سے مہنگائی ہوئی اور ایکسچینج ریٹ پر بھی اثرات مرتب ہوئے، اس لیے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت حکومت یکم جولائی سے اسٹیٹ بینک سے قرض لینا مکمل طور پر بند کردے گی۔ یوں مہنگائی میں کمی ہوگی اور روپے میں بھی استحکام آئے گا۔ یہی بات 20 مئی کو جاری ہونے والے مانیٹری پالیسی بیان میں کہی جاچکی ہے کہ موجودہ مالی سال کے دوران حکومت نے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے مرکزی بینک سے 4 ہزار 800 ارب روپے قرض لیا جو کہ سابقہ حکومت کے اسی عرصے کے مقابلے میں دگنے سے بھی زیادہ ہے۔
رضا باقر نے وضاحت کی کہ پاکستان نے ایکسچینج ریٹ کے لیے فری فلوٹ کی پالیسی نہیں اپنائی ہے بلکہ اس کے لیے مارکیٹ بیس پالیسی کو اپنایا گیا ہے۔ فری فلوٹ پالیسی میں اسٹیٹ بینک روپے کی شرح مبادلہ میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا ہے جبکہ مارکیٹ بیس پالیسی میں ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ میں طلب و رسد کے قانون پر رکھا جاتا ہے۔ مارکیٹ طلب و رسد کی بنیاد پر ایکسچینج ریٹ کا تعین کرتی ہے۔ مارکیٹ بیس پالیسی میں اسٹیٹ بینک طلب و رسد پر نگاہ رکھتا ہے اور اگر کوئی سٹے بازی کرنے کی کوشش کرے تو اسٹیٹ بینک مداخلت کرسکتا ہے۔ ڈالر کی طلب و رسد کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کے پاس اعداد وشمار موجود ہوتے ہیں۔
مارکیٹ بیس ایکسچینج ریٹ میں دوطرفہ تحریک ہوتی ہے۔ اس میں ریٹ کم بھی ہوتا ہے اور بڑھتا بھی ہے۔ جس طرح رمضان المبارک میں بیرونی ترسیلاتِ زر مین اضافہ دیکھا گیا کہ جس سے ایکسچینج ریٹ مین بہتری ہوئی۔ عید کے بعد ڈالر کی طلب میں اضافے سے ایکسچینج ریٹ میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈالر کا انفلو ہوگا تو ایکسچینج ریٹ میں بہتری آئے گی۔
مہنگائی اور بنیادی شرح سود
اس وقت پاکستان کا بنیادی شرح سود 12.25 فیصد ہے جو کہ خطے کے تمام ملکوں بشمول بھارت، بنگلہ دیش سے کافی زیادہ ہے۔ رضا باقر نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد 20 مئی کو جو مانیٹری پالیسی جاری کی اس میں بنیادی شرح سود ڈیڑھ فیصد سے بڑھا کر 12.25 فیصد کی موجودہ سطح پر لے آئے ہیں۔
اس حوالے سے میں نے گورنر سے سوال کیا کہ بنیادی شرح سود میں اس وقت اضافہ کیا جاتا ہے جب معیشت میں طلب کا دباؤ موجود ہو۔ پیداوار کے مقابلے میں طلب زیادہ ہونے کی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہو مگر اس وقت تو معیشت سکڑ رہی ہے، طلب میں کمی ہورہی ہے، ملک میں بجلی، سیمنٹ، سریا، ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں میں اضافی صلاحیت موجود ہے۔ صنعتیں سابقہ سال کے مقابلے میں اپنی گنجائش سے کم پیداوار کررہی ہیں اور صنعتی ترقی منفی میں ہے تو ایسے میں شرح سود میں اضافہ کیوں کیا گیا۔
اس سوال پر رضا باقر نے اپنا 20 مئی کا مانیٹری پالیسی بیان دہرا دیا کہ مہنگائی میں اضافہ، روپے کی شرحِ مبادلہ میں گراوٹ، بلند مالیاتی خسارے اور یوٹلیٹی نرخوں کو عوام پر منتقل کرنے کی وجہ سے مستقبل میں مہنگائی ہوگی اور مانیٹری پالیسی مستقبل کے درپیش چیلنجز کو مد نظر رکھ کر بنائی جاتی ہے۔ مستقبل میں حکومتی اقدامات کی وجہ سے مہنگائی نے بڑھنا تھا اور اسٹیٹ بینک کے پاس مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے مانیٹری پالیسی کے علاوہ اور کوئی ٹول نہیں ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام
گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ عہدے کا چارج سنبھالنے کے فوری بعد وہ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں جُٹ گئے اور فوری طور پر اسٹاف کی سطح کا معاہدہ کرانے میں کامیاب رہے جس کے تحت پاکستان کو 6 ارب ڈالر کا قرض آسان اقساط اور کم ترین شرح سود پر ملے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس قرض سے حکومت کے مالیاتی شعبے کو استحکام ملے گا۔
گورنر اسٹیٹ بینک سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ آخر آئی ایم ایف میں جانے کی وجہ کیا تھی؟ اس پر رضا باقر کا کہنا تھا کہ آئی یم ایف سے معاہدے سے دنیا کو پیغام جاتا ہے کہ پاکستان معیشت میں اصلاحات کرنے کے لیے پُرعزم ہے جس سے دیگر قرض دینے والے اداروں اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوتا ہے کہ معیشت کو درپیش مسائل کو حقیقت پسندانہ طریقے سے حل کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ کم ترین شرح سود پرزرمبادلہ قرض مل جاتا ہے۔
گورنر نے دعوی کیا کہ اسٹیٹ بینک نے آئی ایم ایف سے معاہدے کی تمام شرائط پوری کرلی ہیں مگر کیا شرائط ہیں، یہ بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ 3 جولائی کو آئی ایم ایف بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس ہے جس میں پاکستان کے لیے قرض کی منظوری دی جائے گی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیا شرائط ہیں جو اسٹیٹ بینک پوری کرنے کا دعوی کررہا ہے تو رضا باقر کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے 3 جون کا انتظار کریں، معاہدے کی شرائط خود آئی ایم ایف جاری کردے گا۔
ذاتی وضاحت
رضا باقر نے بطور گورنر اسٹیٹ بینک اپنی تقرری پر اٹھنے والا تند و تیز سوالات کے جوابات بھی نہایت دھیمے اندازمیں دیے۔
اس سے قبل گورنر ہاؤس میں میڈیا بریفنگ کے دوران جب ایک رپورٹر نے اعزازی چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی سے ان کی تقرری کے حوالے سے سوال کیا تو وہ سیخ پا ہوگئے اور رپورٹر سے اُلجھ پڑے تھے۔ میڈیا بریفنگ ختم ہونے کے بعد بھی شبر زیدی نے نہایت ہی جاہرانہ انداز سے رپورٹر سے گفتگو کی، میرے لیے یہ بات باعثِ حیرت تھی کیونکہ شبر زیدی عام طور پر ایسی گفتگو نہیں کرتے تھے۔ اندازہ ہوا کہ ذاتی سطح کی بات چیت پر لوگوں کو غصہ آہی جاتا ہے۔
ہمارے ساتھی رپورٹر نے سوال کرہی لیا کہ یہ بات کہی جارہی ہے کہ آپ کا شناختی کارڈ راتوں رات نادرا کا دفتر کھول کر بنایا گیا ہے اور آپ کے پاس پاکستان کی شہریت بھی نہیں ہے۔
بہرحال، رضا باقر نے سوال پر جواباً وضاحت دی کہ ان کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں ہے۔ ’نوکری ملک سے باہر ضرور کی ہے مگر پاکستان آتا جاتا رہا ہوں۔‘
رضا باقر کی تقرری کے بعد اپوزیشن نے بہت ہی سخت تنقید کی تھی کہ آئی ایم ایف سے آئی ایم ایف مذاکرات کررہی ہے اور یہ تنقید کسی حد تک حق بجانب بھی تھی کیونکہ رضا باقر چند روز قبل ہی آئی ایم ایف کی ملازمت چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔
میں نے بھی رضا باقر سے سوال کیا کہ جس ادارے میں ملازمت آپ نے ساری زندگی کی ہے اسے پوری دنیا بالخصوص ترقی پذیر ملکوں میں بہت ہی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف سے وابستہ افراد کو اکنامک ہٹ مین کہا جاتا ہے اور وہ کون سا ملک ہے جس میں آئی ایم ایف نے اصلاحات کی ہوں اور وہ معاشی طور پر مستحکم ہوگیا ہو؟ اس سوال سے رضا باقر یہ کہتے ہوئے دامن بچا گئے کہ وہ ادارہ چھوڑ آئے ہیں اور وہ اس بارے مین کوئی بات نہیں کریں گے۔
جدید ریاستی نظام میں گورنر اسٹیٹ بینک جیسی اسامی بہت اہم ہوتی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک ریاست کا حصہ ہوتا ہے حکومت کا نہیں اسی لیے ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک کے اقدامات سیاسی طور پر حکومتوں کے لیے پریشان کن رہے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک اور سیاسی حکومتوں کے درمیان شدید کشیدگی اور کشمکش بھی جاری رہی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کی تعیناتی تو حکومتِ وقت یا وزیر اعظم کرتا ہے مگراس کو عہدے سے ہٹانے کے حوالے سے حکومت ازخود فیصلہ نہیں کرسکتی ہے۔ اس حوالے سے ایک تحریر پہلے ہی شائع کی جاچکی ہے۔
اپنے صحافتی کیریئر میں متعدد گورنر اسٹیٹ بینک کو کور کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں ڈاکٹر عشرت حسین، ڈاکٹر شمشاد اختر جیسی دبنگ اور آزاد شخصیات کو اس نشست پر بیٹھے دیکھ چکا ہوں۔ ان شخصیات نے اپنی ملازمت کا دورانیہ بھی مکمل کیا تاہم حکومت کے ساتھ کشمکش کے بعد سید سلیم رضا، شاہد ایچ کاردار، یاسین انور اور طارق باجوہ بطور گورنر اسٹیٹ بینک اپنی مدت ملازمت پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اعلیٰ ترین شخصیات کی فرمائش پر ان سب افراد کو قبل از وقت استعفی دینا پڑا۔
اس وقت اگر ملکی معاشی ٹیم پر نظر ڈالی جائے تو اس کے 2 اہم ترین ستون یعنی گورنر اسٹیٹ بینک اور وفاقی مشیر خزانہ دونوں کو اگر درآمد شدہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ وفاقی مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ پاکستان میں اس وقت آتے ہیں جب جھنڈے والی گاڑی ان کی پہلے منتظر ہوتی ہے اور موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر بھی پاکستان میں جھنڈے والی گاڑی میں سوار ہو کر آئے ہیں۔ اگر پاکستان کی معاشی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو رضا باقر جیسے بہت سے درآمدی معاشی ماہرین اس ملک میں اپنی اپنی کارکردگی کا مظاہرہ پیش کرچکے ہیں اور ان انہی معاشی ماہرین کی وجہ سے معیشت آج اُن برے حالات میں ہے۔ محمد شعیب، محبوب الحق، نگران وزیر اعظم معین قریشی، وزیر خزانہ پھر وزیر اعظم شوکت عزیز کے بعد اب عبدالحفیظ شیخ کو خزانے کے معاملات سنبھالنے کے لیے لایا گیا۔
اسی طرح ڈاکٹر شمشاد اختر، یاسین انور کو بھی پاکستان لایا گیا مگر ان تمام افراد کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کیا اصلاحات کیں؟ اور کیا ان کے نتیجے میں معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی یا ایسی معاشی پالیسی وضح کی کہ جو پاکستان کو ہر بار آئی ایم ایف کے دروازے پر لے گئی؟
رضا باقر کا اعتماد اور گفتگو باقی تمام گورنر سے مختلف ہے اور لگتا ہے کہ ان کا اعتماد میں وہ طاقت بول رہی ہے جسے چھوڑ کر وہ پاکستان آئے ہیں اور جہاں انہوں نے دوبارہ جانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ رضا باقر اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ہی جائیں گے، کیونکہ گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت 3 سال ہے اور آئی ایم ایف سے معاہدے کی مدت بھی یہی ہے۔ چنانچہ جب تک پاکستان آئی ایم ایف کے اس پروگرام سے جُڑا رہے گا اس کی نگرانی بھی اسی کا بااعتماد فرد کرے گا۔
رضا باقر کی گفتگو سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس وقت گورنر اسٹیٹ بینک نہیں بلکہ پوری ملکی معیشت چلا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ رضا باقر اسٹیٹ بینک کے امور انجام دینے کے ساتھ حکومت کو دیگر معاشی فیصلوں میں اپنی مشاورت سے مستفید کرتے رہیں گے۔
مگر یہ سوال اہم ہے کہ کیا حکومت ایک آزاد اسٹیٹ بینک اور اس سے بھی آزاد گورنر اسٹیٹ بینک کو برداشت کرسکے گی؟
مستقبل میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ رضا باقر ماضی کی طرح اسٹیٹ بینک کے معاشی جائزے میں حکومتی اقدامات پر تنقید کو جاری رکھ پائیں گے اور مانیٹری پالیسی کو آزادی سے طے کرسکیں گے یا نہیں۔ لگتا تو مشکل ہی ہے۔
تبصرے (7) بند ہیں