• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

'امریکی ڈرون کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے ناقابل تردید شواہد موجود'

شائع June 21, 2019
ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ایران نے بہت بڑی غلطی کی — فائل فوٹو/ رائٹرز
ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ایران نے بہت بڑی غلطی کی — فائل فوٹو/ رائٹرز

ایران کا کہنا ہے کہ پاسداران انقلاب کی جانب سے مار گرائے جانے والے امریکی ڈرون کی فضائی حدود کی خلاف ورزی سے متعلق ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق تہران کا مذکورہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایرانی اہداف پر جوابی حملے کی منظوری اور بعد میں اسے منسوخ کرنے کی رپورٹس کے بعد سامنے آیا۔

گذشتہ روز ایران کی جانب سے امریکی ڈرون گرانے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔

اس حوالے سے واشنگٹن کا اصرار ہے کہ ڈرون بین الاقوامی سمندر میں تھا لیکن ایران کا کہنا ہے کہ وہ اس کی فضائی حدود میں موجود تھا۔

نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق آبنائے ہرمز کے قریب ڈرون مار گرانے کے رد عمل میں ڈونلڈ ٹرمپ نے محدود ایرانی اہداف پر جوابی حملے کے احکامات جاری کیے تھے۔

اخبار کے مطابق امریکا ایرانی اہداف، جیسا کہ ریڈار اور میزائل ڈپو کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کررہا تھا، لیکن اس منصوبے کو ابتدائی مراحل ہی میں اچانک منسوخ کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: امریکی ڈرون گرانے کا واقعہ: ایران نے بہت بڑی غلطی کی، ڈونلڈ ٹرمپ

دی ٹائمز کے مطابق وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون حکام نے اس حوالے سے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ یہ واضح نہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوابی حملہ موخر کیا ہے یا اسے منسوخ کیا ہے۔

گذشتہ روز ایران کی جانب سے امریکی ڈرون گرانے کے رد عمل میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ کیا تھا کہ 'ایران نے بہت بڑی غلطی کی'۔

بعد ازاں وائٹ ہاؤس میں انہوں نے کہا کہ 'یہ ملک اس کے لیے کھڑا نہیں ہوگا اور یہ میں آپ کو بتا سکتا ہوں'۔

انہوں نے کہا کہ 'میرے لیے یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ حملہ دانستہ طور پر کیا گیا، میرا خیال ہے کہ یہ کسی احمق شخص کی جانب سے ہی کیا جاسکتا ہے'۔

امریکی صدر کے ملے جلے پیغام سے دنیا کو یہ واضح نہیں ہوسکا کہ واشنگٹن کا اگلا اقدام کیا ہوگا۔

دوسری جانب ایران نے احتجاج کے لیے سوئیڈن کے سفارت کار کو طلب کیا تھا، جن کا ملک 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد سفارتی تعلقات پر امریکا کی نمائندگی کرتا رہا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ نائب وزیر خارجہ عباس نے سوئیڈن کے سفارت کار کو ایرانی فضائی حدود کی خلاف ورزی سے متعلق 'ناقابل تردید' شواہد فراہم کیے۔

نائب وزیر خارجہ نے سوئس سفارت کار کو بتایا کہ 'یہاں تک ڈرون کے ملبے کا کچھ حصہ ایرانی سمندری حدود سے برآمد گیا تھا'۔

انہوں نے اس موقف کو دہرایا کہ 'ایران خلیج فارس میں جنگ اور تنازع نہیں چاہتا لیکن خبردار کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کسی جارحیت کے خلاف اپنی سرزمین کا دفاع کرنے میں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ہچکچائے گا'۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ایران، اقوام متحدہ میں ثابت کرے گا کہ ڈرون گرائے جانے سے قبل وہ تہران کی فضائی حدود میں داخل ہوا تھا'۔

انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا کہ 'ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن پرجوش طریقے سے اپنی فضا، سرزمین اور سمندر کا دفاع کریں گے'۔

امریکی پرواز پر پابندیاں

امریکی وفاقی ایوی ایشن انتظامیہ نے پروازوں کو خبردار کیا ہے اور تاحکم ثانی امریکی مسافر بردار جہازوں کو اس علاقے میں داخل ہونے سے روک دیا ہے، جہاں گذشتہ روز ڈرون کو حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

محکمہ دفاع پینٹاگون نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نیوی کا ڈرون ایران سے 34 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔

پینٹاگون نے ڈرون کے فلائٹ روٹ کا نقشہ شائع کیا، جس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ وہ ایرانی سمندری حدود سے باہر محو پرواز تھا اور اس میں شامل تصویر میں ڈرون گرائے جانے کے وقت اس کی سمت ( "42'57°25شمال، "22'50°56 مشرق ) بتائی گئی ہے۔

دوسری جانب ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ٹوئٹ کیا کہ 'رات 12 بج کر 14 منٹ پر امریکی ڈرون خفیہ طریقے سے آیا اور ایران فضائی حدود کی خلاف ورزی کی'۔

یہ بھی پڑھیں: ایران: پاسداران انقلاب کا امریکی جاسوس ڈرون مار گرانے کا دعویٰ

انہوں نے کہا کہ 4 بج کر 5 منٹ پر کوہ مبارک کے قریب ("43'59°25 شمال، "25'02°57 مشرق ) پر موجود تھا۔

اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گیوتیرس کو لکھے گئے خط میں ایران نے 'اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین کے خلاف امریکی فوج کی جانب سے خطرناک اقدام' کے خلاف احتجاج کیا۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز ایران کی پاسداران انقلاب اسلامی نے جنوبی ساحلی پٹی پر امریکی جاسوس ڈرون مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔

پاسداران انقلاب کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ کوہ مبارک نامی حصے میں ایرانی فضائیہ نے امریکی ساختہ گلوبل ہاک ڈرون کو ملک کی فضائی سرحد کی خلاف ورزی پر نشانہ بنایا۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ آر کیو 4 گلوبل ہاک نامی امریکی ڈرون انتہائی بلندی پر 30 گھنٹے سے زائد محو پرواز رہ سکتا ہے۔

اس ڈرون میں نصب جدید آلات انتہائی خراب موسم میں بھی خطے میں ہونے والی کسی بھی نقل و حرکت کی بہترین عکس بندی کرسکتے ہیں۔

دوسری جانب امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) نے تصدیق کی تھی کہ ایرانی فورسز نے نگرانی پر مامور امریکی نیوی کے ڈرون آر کیو-4 گلوبل ہاک مار گرایا، تاہم ان کا کا اصرار ہے کہ ڈرون کو بین الاقوامی فضائی حدود میں بلاوجہ نشانہ بنایا گیا۔

سینٹرل کمانڈ کے ترجمان نیوی کیپٹن بل اربن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایرانی فورسز نے آبنائے ہرمز میں بین الاقوامی فضائی حدود میں موجود ڈرون کو نشانہ بنایا۔

ترجمان نے مزید کہا تھا کہ ’ایران کی جانب سے ڈرون کے فضائی حدود کی خلاف ورزی کی خبر جھوٹی ہے‘۔

واضح رہے کہ امریکا نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر تنازع میں شدت کے بعد تہران کو دباؤ میں لانے کے لیے خلیج فارس میں بی 52 بمبار سمیت متعدد طیارے اور جنگی بحری بیڑا اتارنے کے بعد اسالٹ شپ اور پیٹرائٹ میزائل دفاعی نظام تعینات کیے تھے۔

گذشتہ ایک ماہ کے اندر امریکا، مشرق وسطیٰ میں مرحلہ وار ڈھائی ہزار فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کرچکا ہے۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سیکیورٹی مشیر جان بولٹن نے کہا تھا کہ مذکورہ اقدام کا مقصد ایران کو واضح اور غیر مبہم پیغام دینا ہے کہ اگر اس نے امریکا یا خطے میں اس کے کسی پارٹنر پر حملہ کیا تو نتائج سنگین ہوں گے۔

مزید پڑھیں: متحدہ عرب امارات کے ساحل پر 4 جہاز ’تخریب کاری کا نشانہ‘ بنائے گئے، حکام

اسی دوران خلیج عمان میں 4 تیل بردار جہازوں پر حملہ ہوا اور امریکا نے حملے کا الزام ایران پر عائد کیا۔

واشنگٹن نے اپنے دعوے کے دفاع میں ایک ویڈیو بھی نشر کی جس میں پاسداران انقلاب کی ایک کشتی کو تیل بردار جہاز کے پاس دیکھا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب ایران نے امریکی الزام کو من گھڑت قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔

گزشتہ ہفتے خلیج عمان میں ایک مرتبہ پھر 2 تیل برداروں پر حملہ کیا گیا تھا جس کا الزام بھی ایران پر عائد کیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024