جعلی اکاؤنٹس کیس: آصف زرداری مزید 11 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی حراست میں موجود سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو مزید 11 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔
اس سے قبل (نیب) نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں گرفتار آصف علی زرداری کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر دوبارہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے رو برو پیش کیا تھا۔
آصف علی زرداری کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر پولیس نے پیپلز پارٹی کے رہنماوں کو عدالت میں داخل ہونے سے روک دیا، جس کے بعد پی پی پی کے ارکان پارلیمنٹ عدالت کے باہر موجود رہے۔
مزید پڑھیں: آصف علی زرداری کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
احتساب عدالت کے باہر موجود پی پی پی رہنماؤں میں سینیٹر سسی پلیجو، شاہدہ رحمانی، سینیٹر گیانچند، نیر بخاری اور آصف زرداری کے ترجمان عامر فدا پراچہ موجود تھے۔
بعد ازاں آصف زرداری کے وکلا احتساب عدالت پہنچے۔
واضح رہے کہ جسمانی ریمانڈ کے دوران آصف زرداری کی ان کے بچوں سے ملاقات بھی کرائی گئی، جسمانی ریمانڈ کے دوران اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق صدر کے پروڈکشن آڈر بھی جاری کئے اور پروڈکشن آڈر جاری ہونے کے بعد سابق صدر نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔
خیال رہے کہ سابق صدر کو سخت سیکیورٹی میں احتساب عدالت پہنچایا گیا اور عدالت کی جانب آنے والے تمام راستے بند کر دیئے گئے تھے۔
دوران سماعت نیب نے سابق صدر آصف علی زرداری سے کی جانے والی تفتیش کی رپورٹ عدالت میں پیش اور ساتھ ہی ان کے مزید 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کردی۔
علاوہ ازیں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر نے سابق صدر کے میڈیکل چیک اپ کی رپورٹ بھی عدالت میں جمع کروا دی۔
جج ارشد ملک نے وکیل صفائی سے استفسار کیا کہ پراسیکیوٹر بتانا چاہتے ہیں کہ انہیں کون کون سی بات پتہ چل چکی ہے، جس پر آصف زرداری کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ان کو کوئی باتیں پتہ نہیں چلیں بلکہ یہ صرف کہانیاں گھڑ رہے ہیں کیونکہ یہ سارا کیس صرف مفروضوں پر مبنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کے خلاف کیس بے بنیاد ہے جبکہ یہ سیاسی انتقام ہے جو شروع سے ہوتا آ رہا ہے لیکن عدلیہ پر پورا یقین ہے۔
اس پر نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی کا کہنا تھا کہ ہم کچھ گھڑ نہیں رہے بلکہ تفتیش میں سامنے آنے والی باتیں بتا رہے ہیں، جس کے بعد انہوں نے تفتیش میں پیش رفت کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا اور رپورٹ پیش کی۔
اس موقع پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ کیا آصف زرداری کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ جس پر سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ نہیں، یہ صرف سننا چاہتے ہیں جو ان کے بارے میں لب کشائی کی جا رہی ہے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ سننا چاہتے ہیں کہ کون کون سی باتیں نیب کو پتہ چل چکی ہیں۔
اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ سننا چاہتے ہیں کہ نیب کون کون کون سی باتیں گھڑ رہا ہے، اس موقع پر آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ملزم ناصر نے اپنے بیان میں کہا کہ آصف زرداری کو جانتا ہوں مگر کوئی مالی لین دین نہیں، کسی شخص کو جاننا کوئی جرم نہیں ہے۔ آصف زرداری رپورٹ کا متن سننے روسٹرم پر آئے اور عدالت سے کہا کہ ایک ہی دفعہ 90 روز کا ریمانڈ دے دیں۔
آصف زرداری کا مزید کہنا تھا کہ کوئی ایشو نہیں ہے، جج صاحب دیکھ رہے ہیں، جج صاحب بہت ایماندار ہیں، معیار پر فیصلہ کریں گے، اس موقع پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں مکمل طور پر ملک کی عدلیہ پر یقین ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب سیاسی انتقام کے لیے پولیٹیکل انجینئرنگ کر رہا ہے اور یہ اقدام جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ نیب 14، 14 روز کا جسمانی ریمانڈ کیوں مانگ رہے ہیں؟
دوران سماعت نیب کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ اس ایف آئی آر میں زمینوں سے متعلق معاملات ہیں، فنڈز کی خرد برد ہے، اومنی گروپ نے مزید قرضے لینے کے لیے الفارون کے نام سے بے نامی کمپنی بنائی۔
فاروق ایچ نائیک نے نیب کی مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آغا سپر مارکیٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ مارکیٹ 1970 سے بنی ہوئی ہے، الفارون سے بھی ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔
نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ دوران تفتیش آصف زرداری نے مفرور ملزم ناصر عبداللہ سے قریبی تعلق کو تسلیم کیا ہے جبکہ ملزم نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ ناصر عبداللہ ان کا فرنٹ مین ہے۔
بعد ازاں احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے آصف زرداری کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: آصف علی زرداری کی 'خفیہ جائیداد' سے متعلق علی زیدی کا انکشاف
کچھ دیر بعد عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے آصف زرداری کا 11 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا اور انہیں 2 جولائی تک نیب کے حوالے کردیا۔
سابق صدر کو 2 جولائی کو دوبارہ احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
احتساب عدالت کی جانب سے 11 روزہ ریمانڈ دیئے جانے کے بعد نیب نے آصف علی زرداری کو قومی اسمبلی منتقل کیا جہاں بجٹ 20-2019 پر بحث جاری تھی۔
اس دوران آصف زرداری سے صحافی نے سوال کیا کہ آپ کے مطالبے پر احتساب عدالت کے جج نے 90 روز کا ریمانڈ نہیں دیا، اس پر آپ کیا کہیں گے؟ جس پر سابق صدر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ میں 90 روز تک جیل میں رہوں؟
11 جون 2019 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے آصف علی زرداری کے خلاف 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا اور انہیں 21 جون کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
10 جون کو نیب نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد آصف علی زرداری کو زرداری ہاؤس اسلام آباد سے گرفتار کیا تھا۔
جعلی اکاؤنٹس کیس
واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے 6 جولائی کو حسین لوائی سمیت 3 اہم بینکرز کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا۔
حسین لوائی اور دیگر کے خلاف درج ایف آئی آر میں اہم انکشاف سامنے آیا تھا جس کے مطابق اس کیس میں بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام شامل تھے۔
ایف آئی آر کے مندرجات میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کا ذکر بھی تھا، اس کے علاوہ یہ بھی ذکر تھا کہ زرداری گروپ نے ڈیڑھ کروڑ کی منی لانڈرنگ کی رقم وصول کی۔
مزید پڑھیں: آصف علی زرداری کی 'خفیہ جائیداد' سے متعلق علی زیدی کا انکشاف
ایف آئی آر کے متن میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں اور افراد کو سمن جاری کیا گیا جبکہ فائدہ اٹھانے والے افراد اور کمپنیوں سے وضاحت بھی طلب کی گئی تھی۔
ایف آئی آر کے متن میں مزید کہا گیا تھا کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ 6 مارچ 2014 سے 12 جنوری 2015 تک کی گئی جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے آصف زرداری اور فریال تالپور کو مفرور بھی قرار دیا گیا تھا۔
جس کے بعد جعلی اکاؤنٹس کیس اور 35 ارب روپے کی فرضی لین دین سے متعلق کیس میں ایف آئی اے کی درخواست پر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔
تاہم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دونوں رہنما منی لانڈرنگ کیس میں ملزم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ
جس کے بعد نگراں حکومت کی جانب سے آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا گیا تھا۔
بعدازاں فریال تالپور نے لاڑکانہ میں سندھ ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔
علاوہ ازیں 35 ارب روپے کے جعلی اکاؤنٹس کیس میں 15 اگست کو ایف آئی اے نے اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور عبدالغنی مجید کو گرفتار کرلیا تھا لیکن ملزمان کی جانب سے صحت کی خرابی کا دعویٰ کیا گیا تھا۔