• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ایران کا 27 جون سے یورینیم افزودگی کی طے شدہ حد سے تجاوز کرنے کا اعلان

شائع June 17, 2019 اپ ڈیٹ June 18, 2019
افزودہ یورینیم کے ذخیرے کی 300 کلوگرام حد سے تجاوز کرنے کے لیے الٹی گنتی شروع کردی گئی ہے — فائل فوٹو/ رائٹرز
افزودہ یورینیم کے ذخیرے کی 300 کلوگرام حد سے تجاوز کرنے کے لیے الٹی گنتی شروع کردی گئی ہے — فائل فوٹو/ رائٹرز

ایران کے اعلیٰ سطحی جوہری عہدیدار نے اعلان کیا ہے کہ ایران 27 جون سے عالمی طاقتوں سے جوہری معاہدے میں یورینیم افزودگی کی طے شدہ حد سے تجاوز کر جائے گا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’ اے ایف پی‘ کی رپورٹ کےمطابق ایران کی جوہری توانائی تنظیم کے ترجمان بہروز کمال واندی نے پریس کانفرنس میں کہا ’آج سے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کی 300 کلوگرام حد سے تجاوز کرنے کے لیے الٹی گنتی شروع کردی گئی ہے اور 10 دن میں ہم اس سے تجاوز کر جائیں گے‘۔

تہران کے جنوب مغرب میں واقع ارک نیوکلیر پلانٹ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’یہ جوہری معاہدے کے آرٹیکل 26 اور 36 پر مبنی ہے اور دیگر فریقین کی جانب سے شرائط پر عملدرآمد کے بعد ان پر عمل کیا جائے گا‘۔

مزید پڑھیں: ’تمام فریق جوہری معاہدے پرعمل کریںِ، ایران تنہا جڑا نہیں رہ سکتا‘

8 مئی کو ایرانی صدر حسن روحانی نے اعلان کیا تھا کہ تہران 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت افزودہ یورینیم اور بھاری پانی کے ذخائر سے متعلق پابندیوں سے دستبردار ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ یہ اقدام گزشتہ برس امریکا کی جانب سے یکطرفہ دستبرداری کے جواب میں اٹھایا گیا ہے، جس کے بعد واشنگٹن نے تہران پر سخت معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں۔

ایران نے 8 جولائی کے بعد مزید خلاف وزری کی دھمکی دی ہے جب تک برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس امریکا کی جانب سے عائد کی گئی معاشی پابندیوں سے نمٹنے اور خاص طور پر تیل کی فروخت میں مدد نہیں کرتے۔

جوہری معاہدے کے تحت ایران نے کئی سال تک جوہری صلاحیت میں کمی پر اتفاق کیا تھا اور عالمی ماہرین کو بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی کے بدلے اپنی سرگرمیوں کی نگرانی کی اجازت دی تھی۔

معاہدے کے تحت ایران نے یورینیم کی افزودگی کی شرح 3.67 فیصد سے زائد نہ رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔

جوہری معاہدے کے تحت ایران سے افزودہ یورینیم اور بھاری پانی برآمد کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا تاکہ ملک کے ذخائر طے شدہ حد سے تجاوز نہ کریں، تاہم امریکی پابندیوں کی وجہ سے یہ برآمدات ناممکن ہوگئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری کا اعلان

دو روز قبل ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ ایران اس وقت تک جوہری معاہدے پر عمل نہیں کرے گا جب تک معاہدے کے دیگر اراکین 'مثبت اشارہ' نہیں دیتے۔

ایرانی صدر نے تاجکستان میں منعقدہ کانفرنس میں روسی، چینی اور دیگر ایشیائی رہنماؤں کو بتایا تھا کہ 'ایران اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر جڑا نہیں رہ سکتا'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ ضروری ہے کہ معاہدے کے تمام فریقین اسے بحال کرنے میں کردار ادا کریں'۔

خیال رہے کہ جولائی 2015 میں ایران اور 6 عالمی قوتوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عملدرآمد 2016 سے شروع ہوا تھا۔

اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو روکنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا اور توانائی کے حصول کے لیے جوہری مواد کے استعمال کو بین الاقوامی جانچ کے حوالے کردیا تھا۔

گزشتہ برس مئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے سابق صدر کی جانب سے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں امریکی صدر نے ایران پر سنگین معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں جن کے باعث ایرانی معیشت بدحالی کا شکار ہے۔

امریکا کی دستبرداری کے بعد معاہدے کے دیگر فریقین نے اسے برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا تھا لیکن ان کی اکثر کمپنیاں امریکا کے دباؤ کی وجہ سے تہران کے ساتھ معاہدے منسوخ کرچکی ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024