مصر کے سابق صدر محمد مرسی کمرہ عدالت میں انتقال کرگئے
مصر کے سابق صدر محمد مُرسی کمرہ عدالت میں انتقال کر گئے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق مصر کے سرکاری ٹی وی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ عدالتی کارروائی کے بعد 67 سالہ محمد مرسی بے ہوش ہوگئے اور کچھ دیر بعد انتقال کر گئے۔
خبر ایجنسی 'اے پی' کی رپورٹ میں کہا گیا کہ عدالت میں محمد مرسی کے خلاف جاسوسی کے مقدمے کی سماعت جاری تھی۔
عدالتی ذرائع کا کہنا تھا کہ محمد مرسی عدالت میں موجود پنجرے نما سیل میں بند تھے جہاں انہوں نے کچھ دیر جج سے گفتگو کی، سابق صدر نے جج سے تقریباً 20 منٹ تک بات کی، اس کے بعد وہ بے ہوش ہوگئے جس پر انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ دم توڑ گئے۔
وفات سے قبل محمد مرسی نے جذباتی انداز میں جج کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا، انہوں نے خود پر جاسوسی کے الزامات کی سختی سے تردید کی۔
محمد مرسی کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی ملک کی سلامتی و خود مختاری کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔
عینی شاہدین کے مطابق عدالتی کارروائی کے دوران الاخوان المسلمین کے کئی رہنما بھی پنجرے میں موجود تھے جو اپنے قائد کی موت کا یقین ہونے پر بے ہوش ہوگئے تھے۔
مزید پڑھیں: جاسوسی کیس: محمد مرسی کی عمر قید کی سزا برقرار رکھنے کا حکم
واضح رہے کہ حسنی مبارک کی 3 دہائیوں پر مشتمل آمریت کے خلاف جنوری 2011 میں قاہرہ کے تحریر اسکوائر پر لاکھوں افراد نے مظاہرہ کیا اور حسنی مبارک سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔
یہ قاہرہ کا وہ چوک ہے، جسے سب سے پہلے نہر سوئز کی تعمیر کا تاریخی کارنامہ انجام دینے والے حکمران اسماعیل پاشا کا نام دیتے ہوئے اس کا نام ’میدانِ اسماعیلیہ‘ رکھا گیا۔
پھر انقلاب مصر کے بعد 1919ء میں اسے آزادی چوک کہا جانے لگا، بالآخر 1952ء میں اسے تحریر اسکوائر کا نام نصیب ہوا۔
تحریر اسکوائر پر لاکھوں افراد کے مظاہروں کے نتیجے میں حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے بعد جون 2012 میں مصر کے پہلے آزادانہ طور پر منتخب ہونے والے صدر محمد مرسی کو اقتدار کے صرف ایک سال بعد استعفے کے مطالبہ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
جولائی 2013 میں اس وقت کے آرمی چیف اور موجودہ صدر عبد الفتح السیسی نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
مصری فوج نے اخوان المسلمین کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے محمد مرسی سمیت کئی رہنماؤں اور سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کرلیا تھا۔
محمد مرسی کو جاسوسی، مظاہرین کو قتل کروانے اور جیل توڑنے کے الزامات کے تحت عمر قید، سزائے موت اور 20 سال قید کی سزائیں بھی سنائی گئی تھی۔
تبصرے (2) بند ہیں