ایک حکومت دو سمتیں
میں نے اس سے پہلے کسی بھی وزیراعظم کو اس انداز میں اپنی حکومت کے اعلان کردہ بجٹ کی طرف توجہ مبذول کرواتے نہیں دیکھا جس انداز میں عمران خان نے منگل کی رات توجہ دلائی۔
وزیرِ مملکت برائے محصولات حماد اظہر نے بڑے ہی پرسکون انداز میں ٹھیک کسی اسکول کے بچے کے سنجیدہ پن کے جیسا مظاہرہ کرتے ہوئے بجٹ پیش کیا تاہم اس کے چند گھنٹوں بعد ہی وزیر موصوف کے برعکس وزیراعظم نے بھینچے ہوئے دانتوں کے ساتھ بڑے ہی تند و تیز لب و لہجے میں خطاب کیا۔
یہی وہ لمحہ تھا جب بجٹ دستاویز میں ہونے والے اعداد و شمار سے بھی زیادہ ایک اہم بات منکشف ہوئی۔ چند ہی لمحوں میں ہم نے منقسم نظر آنے والی حکومت کے دو چہرے دیکھے۔ منگل کی رات کو تو مجھے یہ تصدیق کرنی پڑ گئی کہ آیا چاند پورا ہے بھی یا نہیں، کیونکہ کئی دیگر وضاحتیں کام ہی نہیں آ رہی تھیں۔
خوش قسمتی سے وزیراعظم کے خطاب کے ایک جملے نے راز سے پردہ اٹھا ہی دیا۔ عمران خان نے اپنے ان سیاسی مخالفین جن کی رسوائی کی بنیاد پر انہوں نے اپنی پوری سیاسی شخصیت کو کھڑا کیا ہوا ہے، ان پر بجلی گرانے کے وعدوں کی طرف بڑھنے سے قبل اپنے اُس جملے میں کہا کہ ’اب جبکہ معیشت مستحکم ہوچکی ہے‘۔ ان الفاظ سے انہوں نے یہ واضح کردیا کہ ملک کی اقتصادی انتظامیہ سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ فیصلے اب خالصتاً ان کے مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ کے کیمپ اور ان کی مصاحبین کی جانب سے کیے جا رہے ہیں اور شاید یہی اچھا ہے کیونکہ عمران خان ممکنہ طور پر شیخ کی چائنہ شاپ (حساس حالات) میں بپھرے بیل جیسے ہی ثابت ہوتے۔
خیر شیخ کی چائنہ شاپ کا آگے ذکر کرتے ہیں۔ اس وقت عمران خان کے خطاب پر ہی دھیان مرکوز رکھیے۔ قوم سے خطاب میں نظر انے والی تکنیکی غلطیوں اور ایڈیٹنگ کی بہتات، کہ جس کی وجہ سے شاید تین گھنٹے کی تاخیر بھی ہوئی تھی، سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس خطاب کے انتظامات کافی عجلت میں کیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ، 2008ء سے لے کر اب تک ملک پر قرض کا بوجھ 2 ہزار 400 ارب روپے تک بڑھ چکا ہے، ’اور ان برسوں کے دوران دو گھرانوں کی دولت میں اسی تیزی سے اضافہ ہوا۔‘ پھر وہ اپنی اس بات کو سمیٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ، ’قرضے کے بوجھ میں اضافے کی وجہ کرپشن ہے۔‘
ان کی بتائی ہوئی کہانی کچھ یوں ہے۔ ’ان لوگوں‘ نے کرپشن کی، پیسے بنائے، ہنڈی اور حوالہ کے ذرائع سے پیسہ باہر بھیجا اور جب بھی پیسے دوبارہ حاصل کرنا چاہے تو جعلی اکاؤنٹ اور بعض اوقات جعلی اکاؤنٹس سے ہونے والی ترسیل زر کے ذریعے حاصل کرلیے۔
انہوں نے حدیبیہ کیس کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ، اس قسم کی اسکیم میں تقریباً 1 ارب روپے شامل تھے، جبکہ اگلی مثال پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کے دو بیٹوں نے اس قسم کے طریقہ کار کے تحت 3 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی۔
انہیں ایک لمحے کے لیے بھی اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ جن تفصیلات کو وہ ٹی وی پر اپنے خطاب میں بیان کر رہے ہیں وہ عدالتی کارروائی کا حصہ ہیں۔ انہوں نے جو اعداد و شمار فراہم کیے وہ ان بجٹ تقریر میں پیش کیے جانے والے اعداد وشمار کے متضاد تھے۔
مثلاً، ان کی جانب سے دی جانے والی کرپشن معاملات کی مثالوں کو یکجا کیا جائے تو اس میں شامل رقم چند ارب روپوں سے زیادہ نہیں بنتی۔ جبکہ حکمراں جماعت جس قرضے کے بوجھ کا خوب لطف لیتے ہوئے تذکرہ کر رہی ہے وہ تو تقریباً 2 ہزار 400 ارب روپے ہے۔ لہٰذا معاملہ صرف پیسوں کی چوری تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ کافی گہرا ہے۔ کبھی کبھار عمران خان یہ باتیں کرتے ہیں کہ ملک سے باہر سالانہ 10 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کی جاتی ہے، لیکن میں وہ ذرائع تلاش کرنے میں ناکام رہا ہوں جہاں سے ان اعداد کو حاصل کیا گیا ہے۔
وزیراعظم کے خطاب سے چند گھنٹے پہلے نشر ہونے والی حماد اظہر کی تقریر سے اس خیال کا اندازہ ہوا کہ بڑی بڑی، غیر شخصی اور طاقتور میکرو معاشی قوتیں وجود رکھتی ہیں۔ انہوں نے ذخائر کو بہا لے جانے والی مقررہ شرح مبادلہ کی پالیسی، ادائیگیوں کے لیے لازم وملزوم محصولات کے بغیر بڑھتے اخراجات، توانائی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے گردشی قرضے اور دیگر اہم معاملات پر روشنی ڈالی۔ بجٹ تقریر میں گزشتہ حکومتوں کی جانب سے چھوڑے گئے مسائل پر بالکل ہی مختلف تناظر میں تذکرہ کیا گیا۔ میکرو معاشی قوتوں کا کردار اور اقتصادی انتظامیہ میں ہونے والے اہم فیصلے خساروں کے ذمہ دار تھے اور حکومت اس بجٹ کے ساتھ انہیں ختم کرنے کی سعی کرے گی۔
شیخ کی چائنہ شاپ یہ ہے کہ ٹیکس دینے کی صلاحیت رکھنے والوں کو گلے سے پکڑ کر انہیں پیسے ادا کرنے پر مجبور کرتے ہوئے ڈیڑھ کھرب روپے کا ریوینو ہدف پورا کیا جائے۔ اظہر نے اسمبلی کے فلور پر کہا کہ حکومت ٹیکس ریٹرنز کی نان فائلنگ کو مجرمانہ فعل قرار دینے اور ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو فائنلنگ نہیں کر رہے اور انہیں قید کی سزائیں دلوانا چاہتی ہے۔
وہ صنعت جسے ایس آر او 1125 کے ذریعے سیلز ٹیکس سے چھوٹ حاصل تھی اس پر یکم جولائی سے 17 فیصد کے سیلز ٹیکس کا اطلاق ہوگا۔ ٹیکس پلان پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے کسی جنگی پلان کو پڑھا جا رہا ہے، اب آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جو اسے چائنہ شاپ بناتی ہے۔
یہ چائنہ شاپ اس لیے ہے کیونکہ ایک اہم حد تک محصولات وصولی کی کوشش لوگوں کے حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے اتفاق سے مشروط ہوتی ہے، تھوڑا بہت ڈیم فنڈ کے معاملے کی طرح۔
ایمنسٹی اسکیم اس پوری مشق کی کلاسیکی مثال ہے جس نے اس پوری مشق کی ابتدا کی اور ابھی تک ردعمل کافی ٹھنڈا رہا ہے (تاہم ایسے معاملات میں عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ آخری دنوں میں لوگوں کی جانب سے بڑی تعداد میں رد عمل آتا ہے، تو چلیے دیکھتے ہیں۔) اگر لوگ آگے نہیں آتے تو حکومت کی جانب سے سختی سے پیش آنے کے پیغام کی قلعی کھل جائے گی۔
اسی طرح سے مالیاتی بل متعدد عوامل کو مجرمانہ حیثیت دیتا ہے تاہم آیا ایف بی آر (حساب برابر کرنے کے برعکس) محصولات کی پیداوار کے لیے ان اختیارات کو استعمال کرسکے گی یا نہیں، یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
جب تک تاجر خود کو رجسٹر کروانے کے لیے آگے نہیں آتے، کاروباری ادارے اپنی ٹیکس بچانے کی سرگرمی کو ٹیکس وصول کار کے سامنے آشکار کرنے کے لیے راضی نہیں ہوتے، کثیر نیٹ ورتھ رکھنے والے افراد خود کو منظر عام پر نہیں لاتے تب تک محصولاتی پلان اس حد تک کارگر ثابت نہیں ہوگا جتنا کہ اسے ہونا چاہیے۔
اس پلان میں حالات کو بالکل یکسر طور پر بدلنے والی لوگوں اور اداروں کی ایک کثیر تعداد کی شمولیت کے بغیر حکومت ان لوگوں پر ہی ٹیکس لگاتی رہ جائے گی جو پہلے سے بھی زیادہ سرکاری ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔
آخر حکومت کتنے محاذ کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ حکومت سیاسی مخالفت، خیبرپختونخوا میں ابھرتی ہوئی تحریک اور میڈیا سے لڑ نہیں سکتی اور اسی وقت میں کاروباری برادری، تاجر اور دیگر طاقتور گروہوں کے خلاف محاذ نہیں کھول سکتی۔
کسی ایک موڑ پر آ کر حکومت کو جھکنا ہی پڑے گا۔ اب جس دن وقتِ ضرورت آن پہنچا اس دن جو چہرہ حکومت پر چڑھا ہوگا اسی سے طے ہوگا کہ یہ وقت کب اور کیسے آئے گا۔
یہ مضمون 13 جون 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں