• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

آصف زرداری نے بطور احتجاج گرفتاری دی، بلاول بھٹو

شائع June 10, 2019 اپ ڈیٹ June 11, 2019
موجودہ حکومت سلیکٹڈ عدلیہ، سلیکٹڈ اپوزیشن اور سلیکٹڈ میڈیا چاہتی ہے، بلاول بھٹو — فوٹو: ڈان نیوز
موجودہ حکومت سلیکٹڈ عدلیہ، سلیکٹڈ اپوزیشن اور سلیکٹڈ میڈیا چاہتی ہے، بلاول بھٹو — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری کا کوئی حکم نہیں دیا بلکہ انہوں نے احتجاجاً گرفتاری دی۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ' قومی اسمبلی میں آج مجھے دوسری بار بولنے نہیں دیا گیا، لاڑکانہ کے رکن کو بولنے نہیں دیا گیا، اسپیکر نے مجھے یقین دلایا تھا کہ آئندہ اجلاس میں مجھے بولنے کا موقع دیا جائے گا لیکن آج بدقسمتی سے دوسرا سیشن تھا جس میں مجھے بولنے نہیں دیا گیا، آج تین وزرا کو بات کرنے کا موقع دیا گیا مگر مجھے بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔'

انہوں نے کہا کہ 'اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے رویے کی مذمت کرتا ہوں اور ان سے استعفے کا مطالبہ کرتا ہوں۔'

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ 'حکومت جمہوری اور انسانی حقوق پر حملے کر رہی ہے، یہ مارتے ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے، ایسا رویہ پرویز مشرف، ضیاالحق کے دور میں بھی نہیں دیکھا جیسا آج نئے پاکستان کی اسمبلی میں دیکھ رہے ہیں، میں نے وزیرستان کے اراکین قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر کے لیے اسپیکر کو خط لکھا تھا، یہ بھی کہا تھا کہ اسپیکر کے علم میں لائے بغیر ان اراکین کو گرفتار کیا گیا اور اسپیکر، وزیرستان کے دو نوجوان اراکین اسمبلی کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے، سنگین الزامات کے باوجود شفاف ٹرائل کا حق سب کو حاصل ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'موجودہ حکومت سلیکٹڈ عدلیہ، سلیکٹڈ اپوزیشن اور سلیکٹڈ میڈیا چاہتی ہے، عدلیہ پر بھی سازش کے تحت حملہ کیا گیا، پہلے بھی ججز کو نکالنے کی کوشش کی گئی آج بھی یہ کوشش ہو رہی ہے، حکومت اظہار آزادی پر بھی پابندی لگا رہی ہے، مخالف سیاسی شخصیات کے انٹرویوز نشر نہیں ہونے دیئے جاتے، پارلیمنٹ ہاؤس کے فلور پر بات کرنے والے اراکین کی بات دبا دی جاتی ہے، ایوب خان، ضیاالحق، پرویز مشرف اور نئے پاکستان میں کیا فرق ہے؟ ایوب، ضیا، مشرف کے دور میں بھی بولنے کی اجازت نہیں تھی آج بھی نہیں ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'آج اسمبلی کا اجلاس چل رہا تھا، کل بجٹ سیشن ہوگا، ایسی صورتحال میں آصف زرداری کو گرفتار کیا گیا اور حکومت نے انہیں اسمبلی اجلاس میں شرکت سے روکا، ہمیں آج بھی فری ٹرائل کا حق نہیں دیا جارہا، جمہوریت اور معاشی حقوق کے لیے لڑنا میرا فرض ہے، اس بچے کو کیسے ڈرائیں گے جس کے والد نے 11 سال جیل کاٹی، موت سے اس بچے کو کیسے ڈرائیں گے جس کی والدہ اور نانا کو شہید کیا گیا، جس کے ایک ماموں کو زہر اور دوسرے کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔'

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ 'اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری کوئی حکم نہیں دیا بلکہ انہوں نے احتجاجاً گرفتاری دی، نیب ٹیم بغیر آرڈرز کے آصف زرداری کی گرفتاری کے لیے زرداری ہاؤس پہنچی۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'نیا پاکستان عوام کے لیے عذاب بن گیا ہے، چاہتے ہیں پارلیمان اپنی مدت پوری کرے لیکن لگتا ہے حکومت نہیں چاہتی کہ قومی اسمبلی چلے، اپوزیشن حکومت کا احتساب کرتی ہے، حکومت اپوزیشن کے خلاف جو کرتی ہے وہ سیاسی انتقام ہے، علیمہ خان کا احتساب کب ہوگا؟ انہیں اور جہانگیر ترین کو کلین چٹ دی گئی۔'

'عوام دوست بجٹ لائیں بھلے مجھے بھی گرفتار کرلیں'

سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے دوبارہ گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حکومت نے اپنی نا اہلیت چھپانے کے لیے پکڑ دھکڑ کے سلسلے کا آغاز کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت اپنی معاشی دہشت گردی کو چھپانا اور عوام کو گمراہ رکھنے کے لیے ایسے اقدامات کر رہی ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے وہ ہماری زبان بند کرسکتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'حکومت کو مشورہ ہے کہ وہ عوام دوست بجٹ لے کر آئیں میں آپ کا ساتھ دوں گا، ایسے بجٹ پر میرے والد کو کیا مجھے بھی گرفتار کرلیں مجھے کوئی اعتراض نہیں'۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ' جو وعدے آپ نے کیے تھے اگر وہ پورے نہیں کیے اور عوام دشمن بجٹ لے کر آئے تو آپ دیکھیں گے احتجاج ہوتا کیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'حکومت سلیکٹڈ میڈیا، سلیکٹڈ اپوزیشن اور سلیکٹڈ عدلیہ چاہتی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پیپلز پارٹی عوامی رابطہ مہم کا آغاز کرے گی تاکہ عوام کو بتایا جاسکے کہ ان کے ساتھ کیا ظلم ہورہا ہے'۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024