افغان مہاجرین کے بینک اکاؤنٹ کھلوانے کا وعدہ شرمندہ تعبیر ہوگیا
کراچی: جب مہر اللہ کی عمر 18 برس ہوئی تو اس نے اپنا بینک اکاؤنٹ کھلوانے، اے ٹی ایم کارڈ اور چیک بک حاصل کرنا چاہا تاہم اس سلسلے میں جب اس نے بینک سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کے چوں کہ وہ افغان پناہ گزین ہے اس لیے یہ ناممکن ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قالینوں کی تجارت سے وابستہ خاندان سے تعلق رکھنے والے اس 26 سالہ نوجوان نے گذشتہ ماہ پہلی مرتبہ اے ٹی ایم کارڈ استعمال کیا۔
پاکستان میں دہائیوں سے رہائش پذیر لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی طرح مہر اللہ اور اس کے اہلِ خانہ بھی سالوں تک بینک اکاؤنٹ کی سہولت سے محروم تھے۔
یہ بھی پڑھیں: رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے بینک اکاؤنٹس کھولنے کا حکم
تاہم منی لانڈرنگ کی روک تھام کے سلسلے میں مختلف سرکاری محکموں کی کارکردگی پر نظرِ ثانی کے بعد رواں برس فروری میں وفاقی حکومت نے اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے اقدام اٹھایا۔
رواں برس فروری میں وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹ کے ذریعے ہدایت دی کہ وہ افغان پناہ گزین جو رجسٹرڈ ہیں اپنا بینک اکاؤنٹ کھلوا کر ملک کی معیشت میں باضابطہ طور پر حصہ دار بن سکتے ہیں۔
جس کے چند روز بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے پروف آف رجسٹریشن نامی شناختی دستایزات بھی بینکوں کے لیے قابلِ قبول ہے۔
مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک نے افغان مہاجرین کے بینک اکاؤنٹس کھولنے کی منظوری دے دی
بینک نے اعلان کیا تھا کہ افغان مہاجرین کے پی او آر کی بائیومیٹرک تصدیق قومی شناختی کارڈ کی طرح کام کرے گی اور تمام مہاجرین کو اپنے فارمز کے ہمراہ یوٹیلیٹی بلز اور کچھ معاملات میں ریفرنس یا کرایے سے متعلق دستاویزات منسلک کرنا ہوں گی۔
تاہم دوسری جانب ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ اکتوبر 2018 میں وزارت سیفران (اسٹیٹ اینڈ فرنٹیئر ریجن) نے کہا تھا کہ پی او آر کارڈز 30 جون تک کارآمد رہیں گے جس کا مطلب پی او آرز کی مدت میں اضافہ نہیں ہوگا جس کے بعد نئے کھلنے والے بینک اکاؤنٹ بلاک ہوسکتے ہیں۔
کراچی میں سالوں سے رہائش پذیر ایک پناہ گزین نے بتایا کہ عام طور پر مہلت ختم ہونے سے کچھ روز قبل توسیع کردی جاتی ہے اور ہمیشہ سے یہی ہوتا آرہا ہے۔
مہر اللہ اور کے بھائی کا کہنا تھا کہ بینک اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے انہیں پی او آرز کے ساتھ یوٹیلیٹی بلز بھی جمع کروانے پڑے جو اب وہ خود بھی بھر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغان مہاجرین کے اکاؤنٹس بحال کرنے کے فیصلے پر'یو این ایچ سی آر' کا خیر مقدم
پاکستان آمد کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ان کے والد خالی ہاتھ پاکستان آئے تھے اور اب سہراب گوٹھ پر ان کے والد کی 3 قالینوں کی 3 دکانیں ہیں تاہم ان میں سے کوئی بھی ان کے والد کے نام پر نہیں۔
مہر اللہ نے مزید بتایا کہ کاروبار اور دکانیں ایک دوست کے نام پر ہیں جس کے پاس قومی شناختی کارڈ ہے اور اپریل تک ان کے والد کے وہی دوست تمام مالی لین دین کرتے تھے تاہم اب جب ان کا بینک اکاؤنٹ کھل چکا ہے وہ خود یہ کرسکتے ہیں تاہم اس شخص کا نام اب بھی زیر استعمال رہے گا کیوں کہ پی او آرز سے انہیں بینک اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت مل جاتی ہے لیکن کار یا جائیداد سمیت کوئی بھی املاک خریدنے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔