• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

لندن جائیدادوں سے متعلق کچھ نہیں چھپایا، جسٹس قاضی فائز عیسٰی

شائع June 4, 2019
صدر مملکت کو لکھے گئے  خط میں انہوں نے ریفرنس کی کاپی فراہم کیے جانے کی درخواست دہرائی — فوٹو: بشکریہ عدالت عظمیٰ ویب سائٹ
صدر مملکت کو لکھے گئے خط میں انہوں نے ریفرنس کی کاپی فراہم کیے جانے کی درخواست دہرائی — فوٹو: بشکریہ عدالت عظمیٰ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جی سی) میں ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو دوسرا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے ریفرنس کی کاپی فراہم کیے جانے کی درخواست دہرائی اور کہا کہ انہوں نے لندن میں موجود جائیدادوں سے متعلق کچھ نہیں چھپایا ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 8 صفحات پر مشتمل خط میں اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر مملکت اپنے اختیارات کے تحت اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آئین کی پیروی کی جائے۔

اس سے قبل 29 مئی کو انہوں نے صدرِ مملکت کو ایک صفحے پر مشتمل خط لکھا تھا جس میں انہوں نے شکوہ کیا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

اس نئے خط میں، جسے قانونی مبصرین کی جانب سے جج پر لندن میں 3 جائیدادیں رکھنے کے الزامات کا جواب مانا جارہا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ وہ خود پر اور اپنے خاندان کے خلاف تحقیقات کے طریقے پر صبر کرلیں لیکن کیا یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کا مرتکب نہیں ہورہا؟

مزید پڑھیں: سینئر ججز کے خلاف حکومتی ریفرنس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل احتجاجاً مستعفی

خط میں انہوں نے کہا کہ جج ایسا کچھ ہونے کی اجازت نہیں دیتے اور اپنے آئینی حلف کے مطابق وہ آئین کی حفاظت اور اس کا دفاع کرتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اگر عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو آئین میں موجود لوگوں کے بنیادی حقوق کاغذ پر لکھے گئے الفاظ سے بھی چھوٹے ہوجاتے ہیں۔

صدرِ مملکت کو لکھے گئے خط میں ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین کا تقدس ان کی اولین ترجیح ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 5 کہتا ہے کہ آئین اور قانون کی تابعداری ہر شہری کی ذمہ داری ہے جس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی، اس میں مزید کہا گیا کہ یہ ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے جو آئینی دفاتر میں موجود ہوتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں شکوہ کیا کہ حکومت کے ارکان کی جانب سے آدھے ادھورے سچ کو بنیاد بنا کر انہیں اور ان کے خاندان کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ انتہائی پریشان کن ہے۔

خط میں کہا گیا کہ اگر مقصد نجی زندگیوں میں مداخلت کرنا اور رازداری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سازش کرنا ہے تو پورے سچ کو کیوں چھپایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘ججز کے خلاف ریفرنس کیلئے برطانیہ سے دستاویزات حاصل کی گئیں‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومت کی جانب سے تفتیش کرنے والے لازمی طور پر جانتے ہوں گے کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کے دونوں بچوں نے لندن میں کام کیا اور حکومتی افراد کی جانب سے 3 جائیدادوں کی جس تفصیل کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا وہاں وہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جائیدادیں ان کے نام پر ہیں جو اس کے مالک ہیں اور ملکیت چھپانے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی، جائیدادیں کسی ٹرسٹ کے ماتحت نہیں نہ ہی کبھی کوئی آف شور کمپنی قائم کی گئی۔

خط میں کہا گیا کہ جج پر اپنے فنانسز / فنانشلز ظاہر کرنا لازمی نہیں لیکن انہوں نے رضاکارانہ طور پر ایسا کیا کیونکہ ان کی دیانت داری پر شک ظاہر کیا گیا ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے ٹیکس نظام کے تابعدار ہیں اور کبھی بھی ان کی جائیدادوں یا اہلیہ اور بچوں سے متعلق کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: 'سینئر ججز کے خلاف ریفرنسز کے پسِ پردہ وزارت قانون و انصاف نہیں'

خط میں کہا گیا کہ جب سے انہوں نے یہ پیشہ اختیار کیا وہ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں، ان کے خلاف انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی کوئی شکایت موجود نہیں نہ ہی ان کے خلاف انکم ٹیکس کی کوئی کارروائی جاری ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں حیرانی کا اظہار کیا کہ کیا وزیراعظم نے اپنے تمام ٹیکس ریٹرنز میں اپنی اہلیہ اور بچوں کی جائیداداوں کی تفصیلات ظاہر کیں، اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو وہ لازمی طور پر صدر کو ریفرنس جمع کروانے کی ایڈوائس نہیں کرتے۔

خط میں کہا گیا کہ کونسل کی جانب سے کسی نوٹس کے اجرا سے قبل ہی انہیں دیے جانے والے آئینی تحفظ اور شفاف ٹرائل کی خلاف ورزی کی جاچکی ہے۔


یہ خبر 4 جون 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024