‘ججز کے خلاف ریفرنس کیلئے برطانیہ سے دستاویزات حاصل کی گئیں‘
اسلام آباد: وزارت قانون و انصاف کے ترجمان اور وزیر اعظم کے دفتر کے اثاثہ وصولی یونٹ (اے آر یو) نے ایک مشترکہ بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ انہیں اعلیٰ عدالتوں کے ججز کی برطانیہ میں رجسٹرڈ جائیدادوں کی مصدقہ نقول موصول ہوگئیں ہیں جن کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ مذکورہ نقول لندن سے نوٹرائزڈ ہیں جنہیں برطانیہ میں موجود ہائی کمیشن سے باقاعدہ طور پر تصدیق کروایا گیا۔
اس حوالے سے بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایسا موثر نظام قائم کرنے کی شدید ضرورت ہے جہاں پاکستانیوں کے بیرونِ ملک موجود اثاثوں کی نشاندہی اور اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: 'سینئر ججز کے خلاف ریفرنسز کے پسِ پردہ وزارت قانون و انصاف نہیں'
بیان میں کہا گیا کہ ’مذکورہ بالا صورتحال کے پیشِ نظر اور عوام کے مطالبات کی روشنی میں غیر قانونی دولت پاکستان لانے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے حلف اٹھانے کے بعد فوری طور پر تمام متعلقہ حکومتی شعبہ جات کے تعاون سے اپنے آفس میں اے آر یو قائم کیا تھا جس کے بعد سے اے آر یو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے انتھک محنت کررہا ہے‘۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اے آر یو نے پاکستانیوں کی بیرونِ ملک جائیدادوں کی نشاندہی کر کے ان کے بارے میں متعلقہ محکموں کا آگاہ کیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’مندرجہ بالا باتوں کے پس منظر میں اے آر یو کو تین ججز کی غیر ملکی جائیدادوں سے متعلق شکایت/معلومات موصول ہوئیں، وزارت قانون و انصاف کے زیرِ سایہ ججز سے متعلق معاملات کے رول آف بزنس 1973 کے تحت یہ شکایات/ معلومات مناسب کارروائی کے لیے وزارت کے سامنے پیش کی گئیں۔
مزید پڑھیں: سینئر ججز کے خلاف حکومتی ریفرنس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل احتجاجاً مستعفی
جس کے بعد وزارت قانون نے اے آر یو کو شکایت کے مواد کی تصدیق کی ہدایت کی، جس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ کارروائی صرف اس صورت میں کی جائے گی جب تصدیق ہوجائے۔
اس لیے اے آر یو نے تصدیق کا عمل شروع کیا اور متعلقہ اثاثوں میں رجسٹرڈ زمین کی مصدقہ نقول حاصل کیں۔
’تمام معلومات/ شکایات موصول ہونے پر اے آر یو، اٹارنی جنرل پاکستان، وزارت قانون و انصاف، وزیراعظم اور صدر مملکت نے اسے سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کیا‘۔
قبل ازیں وزارت قانون نے وضاحت کی تھی کہ اس کے پاس کوئی ایسا نظام موجود نہیں جس سے کسی جج کے اثاثہ جات کی چھان بین کی جاسکے اس لیے اس پر ملک کے بہترین مفاد میں اے آر یو اور ایف بی آر کے ذریعے عمل کرنا ضروری تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ججز کے خلاف حکومتی ریفرنس پر جسٹس فائز عیسیٰ کا صدر مملکت کو خط
خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کریم خان آغا کے خلاف ریفرنس کے سلسلے میں اٹارنی جنرل آف پاکستان کے ذریعے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کیا اس ریفرنس کی سماعت 14 جون کو ہوگی۔