عیدِ سعید یا عیدِ شہید
ایک آدھ دن کے فرق کے ساتھ پوری دنیا میں لگ بھگ 180 کروڑ مسلمان اور پاکستان کے 20 کروڑ عوام عید الفطر منا رہے ہیں جو یقینی طور پر مسلمانوں کا سب سے بڑا مذہبی تہوار ہے۔
صبح سویرے رُوح پرور مذہبی اجتماعات، خوبصورت چمکدار نفیس لباس، نئے جوتے، مہکتی خوشبوئیں، بناؤ سنگھار، لذیذ کھانے، دمکتے چہرے، رنگا رنگ ٹی وی پروگرام، تحفے تحائف اور سب سے بڑھ کر اپنوں کا ساتھ عید کی خوشیوں کو دوبالا کر دیتا ہے۔
یہی عید جب زندگی کے کسی خوشگوار واقعے کے بعد پہلی بار آتی ہے تو اس کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے جیسے شادی کے بعد نئے جوڑے کی پہلی عید یا پیدائش کے بعد بچے کی پہلی عید وغیرہ۔ ایسی صورت میں عید کا اہتمام معمول سے زیادہ کیا جاتا ہے اور اسے خصوصی طریقے سے منایا جاتا ہے۔
چونکہ چیریٹی کرنے کے حوالے سے پاکستان دنیا میں کئی ممالک سے آگے ہے اس لیے یہاں غریب لوگ بھی کسی نہ کسی حد تک عید کی خوشیوں میں اپنا حصہ تلاش کر ہی لیتے ہیں۔ ہسپتالوں، یتیم خانوں، خیراتی اداروں حتیٰ کہ جیل خانہ جات میں بھی عید کی مسرتیں کھُل کر محسوس کی جاتی ہیں۔ غرضیکہ پورے پاکستان پر عید کی خوشیوں کی برسات یکساں طور پر برس رہی ہے۔
لیکن کچھ گھر ایسے بھی ہیں جو آج عیدِ سعید کے بجائے سوگ میں غَرق عیدِ شہید منا رہے ہیں بلکہ عید کے روز ان کے غم کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ ان کے ہاں یہ عید اپنے بے قصور پیاروں کے جسم بارود سے چھلنی ہونے کے بعد پہلی بار آئی ہے اور انہیں یہ عید اُن کے بغیر گزارنی ہے۔
20 جنوری 2019ء کو ساہیوال میں گولیوں سے بھون دیے جانے والے ذیشان کی معذور ماں اور معصوم بیٹی نے نیا جوڑا تو پہنا ہے لیکن ڈبڈبائی آنکھوں نے سارے خوشنما منظر دُھندلا دیے ہیں۔
فروری کے اواخر میں سیالکوٹ کے شاکر پر بھارتی جیل میں پتھروں کی اندھا دھند بارش ہوئی اور اسے تھوڑی ہی دیر میں قیدِ زنداں اور قیدِ حیات دونوں سے بیک وقت رہائی مل گئی۔ 3 مارچ کی صبح قومی پرچم میں لپٹے شاکر کے جسد خاکی کو دفنانے والے اہلخانہ آج خون کے آنسو رو رہے ہیں۔
8 مئی کو داتا دربار پر خود کش بمبار نے 5 پولیس اہلکاروں اور 8 سویلین لوگوں کے پرخچے اڑا دیے۔ آج ان کے ورثا پوچھ رہے ہیں کہ عید کے دن کیسے خوش ہوا جاتا ہے؟
11 مئی کو جب دہشتگردوں نے گوادر کے پرل کانٹیننٹل ہوٹل میں فائرنگ کرنے کی کوشش کی تو انہیں سب سے پہلی مزاحمت دینے والے گارڈ ظہور کے سینے میں کئی گولیاں ترازو ہو گئیں۔ فرض کی خاطر جان دینے والے کے لواحقین آج غم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
ننھی فرشتہ کے گھر آج بھی صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔
ہزارہ کمیونٹی سانحہ مکران اور سانحہ ہزار گنجی کے شہیدوں کی یاد میں آنسو بہا رہی ہے۔
لورالائی کے ڈی آئی جی آفس پر حملے اور بلوچستان کے ضلع پنجگور میں جان دینے والے 12 پولیس و سیکیورٹی اہلکاروں کے گھر میں آج ویرانیوں کا رقص جاری ہے۔
خفیہ ایجنسیوں کے گمنام شہید ہیرو، جن کا ذکر کہیں سننے کو بھی نہیں ملتا، آج اُن کا غم بھی ہمارا ہی غم ہے۔
اے قوم کے شہیدو، قرآن کہتا ہے کہ تمہیں مردہ نہ کہا جائے بلکہ تم زندہ ہو اور تمہیں خالق کی طرف سے رزق بھی دیا جاتا ہے۔ تمہاری قربانیاں ہم بھولے نہیں۔ عید کی خوشیاں مناتے ہوئے بھی ہمیں تمہاری جان کا قیمتی نذرانہ یاد ہے اور تمہارے لواحقین کے درد کا بھی احساس ہے کہ آج وہ کس کرب سے گزر رہے ہیں۔
اگرچہ ہم دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہیں اور لاشیں اٹھانا ہمارا معمول بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود اب تک ہمارے اندر کسی کا درد محسوس کرنے کی حِس معطل نہیں ہوئی، اور مضبوط قوم کی یہ واضح نشانی ہے۔
آج بھی پنجاب کا ایک خوشحال گھرانہ بلوچستان میں اٹھنے والے کسی شہید کے لاشے پر نوحہ کر سکتا ہے۔ آج بھی لاہور میں جامِ شہادت نوش کرنے والوں کے لیے کراچی میں دعائے مغفرت ہوتی ہے۔ آج بھی پشاور میں خون کی ہولی کھیلی جائے تو سندھ تڑپتا ہے۔ آج بھی سندھ میں گولی چلے تو پورا پاکستان چھلنی ہو جاتا ہے۔ ہم آج بھی ایک جسم کی مانند ہیں جس کے ایک حصے میں درد ہو تو سارے جسم کو محسوس ہوتی ہے۔
لہٰذا آئیے، تھوڑا سا وقت نکال کر ہاتھ اٹھا کے ان شہیدوں کے لیے بلندی درجات اور ان کے لواحقین کے لیے صبرِ جمیل کی دعا کریں۔
اس عید الفطر کا پیغام یہ ہے کہ ہم خواہ کسی بھی مذہب، مسلک، سیاسی پارٹی یا کسی بھی ادارے سے منسلک ہوں، لیکن دہشت گردی کے خلاف ہم متحد ہیں۔
اے خدا! اس ارضِ پاک کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت سے محفوظ کر دے اور ہمیں بقائے باہمی کے تحت ایک ایسا پُر امن معاشرہ عطا فرما جس میں کسی بیٹی کی عصمت تار تار نہ ہو اور کسی بے گناہ کا جسم پرزے پرزے نہ ہو تاکہ اگلے برس ہماری خوشیاں ہر طرح کے غم کی آمیزش سے پاک ہوں۔ آمین