• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

حکومت نے اخراجات میں ایک ہزار ارب روپے کااضافہ کردیا، مسلم لیگ (ن)

شائع June 2, 2019
شاہد خاقان عباسی نے حکومت چھوڑے ہوئے ایک سال مکمل ہونے پر پریس کانفرنس کی—فائل/فوٹو:ڈان
شاہد خاقان عباسی نے حکومت چھوڑے ہوئے ایک سال مکمل ہونے پر پریس کانفرنس کی—فائل/فوٹو:ڈان

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے حقائق نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ 9 ماہ کے دوران حکومت کی آمدنی میں کمی آئی ہے اور اخراجات میں ایک ہزار ارب روہے کا اضافہ ہوگیا ہے۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور مریم اورنگ زیب کے ہمراہ اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب میں نیشنل پریس کلب میں 31 مئی 2018کو حکومت چھوڑنے اور یکم جون 2019 تک ایک سال کے عرصے کے دوران پی ٹی آئی حکومت کا تقابلی جائزہ پیش کیا اور حقائق نامہ جاری کرتے ہوئے حکومت کی پالیسیوں کو خطرناک قرار دے دیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کے 9 ماہ میں حکومت کی آمدن کم اور اخراجات میں ایک ہزار ارب روپے (18 فیصد) اضافہ ہوچکا ہے اور ملک کی مجموعی قومی ترقی 5.8 فیصد سے نصف کم ہوکر تین فیصد پر آچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک سال میں افراط زر 4.2 فیصد سے 127 فیصد اضافے کے ساتھ 9.5 فیصد کی شرح پر پہنچ چکا ہے۔

مزید پڑھیں:حکومت نے عید سے قبل پیٹرولیم مصنوعات مہنگی کردیں

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ قومی ترقی میں تنزلی اور سست روی جس کے ساتھ ساتھ افراط زر کی انتہائی بلند شرح سے ملک ’معاشی جمود‘ کے دور میں داخل ہوگیا ہے جس سے ہماری قومی سلامتی، خودمختاری اور خارجہ پالیسی متاثر ہونے کے خدشات لاحق ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قرضوں کا حجم صرف 9ماہ میں 25 ہزار ارب سے 28.6 ہزارارب روپے پر پہنچ چکا ہے اور اگر رفتار یہی رہی تو پانچ سال بعد یہ قرض ملکی تاریخ میں سب سے بلند ترین 50 ہزار ارب تک پہنچ جائے گا۔

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کے مطابق ایک سال میں مجموعی قومی قرض میں 15 فیصد، قرض اور ادائیگیوں میں 17 فیصد، حکومتی بجٹ خسارے میں 28 فیصداضافہ ہوا ہے جبکہ سرکاری شعبے کے وفاقی ترقیاتی پروگرام ( پی ایس ڈی پی) میں منفی 30 فیصد کمی ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس ریونیو میں ایک فیصد اضافہ ہوا جبکہ شرح سود میں 88 فیصد، افراط زرمیں 92 فیصد اور مئی سے مئی تک ایک سال میں افراط زر میں 127 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ یہ تمام اعدادوشمار مسلم لیگ (ن) کے بنائے ہوئے نہیں ہیں بلکہ حکومت اور بینک ذرائع کی جانب سے ترتیب دیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم قوم کے سامنے ایک واضح تصویر اور موازنہ رکھنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں معلوم ہوں کہ 9ماہ میں حکومت نے اپنی نالائقی اور نااہلی سے ابھرتی ہوئی معیشت کو ڈوبتی ہوئی معیشت میں تبدیل کردیا ہے اور انتہائی تشویش ناک صورت حال درپیش ہے۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں تیسری مرتبہ اضافہ کردیا

انہوں نے کہاکہ 2018ءمیں ختم ہونے والے مالی سال میں ریونیو 4 ہزار ارب تھا اور اس مالی سال میں بھی حکومتی ریونیو چار ہزار ارب ہوگا جو بہت تشویش کا باعث ہے کیونکہ یہ ہدف سے کم ہیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ خسارے کے اثرات ملک وقوم پر مرتب ہوتے ہیں، حکومت کی آمدن میں ایک روپے کا اضافہ نہیں ہوا اور حکومت یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اس کی کیا وجوہات کیا ہیں۔

حکومتی اخراجات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومتی اخراجات جنہیں اخراجات جاریہ کہاجاتا ہے، اس مالی سال میں بڑھ کر سات ہزار ارب روپے تک جاپہنچے ہیں جبکہ 2018 میں ختم ہونے والے مالی سال میں حکومتی اخراجات پانچ ہزار سات سو ارب تھے اور یوں حکومتی اخراجات میں ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اخراجات ان لوگوں کے دور میں ہوئے ہیں جو کفایت شعاری اور اخراجات میں کمی کے دعوے کیا کرتے تھے یعنی یہ تمام دعوے جھوٹ ثابت ہوئے ہیں۔

انہوں نے گزشتہ برس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2018 میں 576ارب روپے کی ترقی ہوئی اور رواں سال اس مد میں 175 ارب روپے کی کمی ہوئی ہے اور مجموعی طور پر اس سال 403 ارب کی ترقی ہوئی ہے اور اگر 2017 سے اب تک موازنہ کریں تو ملک میں ترقیاتی کاموں کے شعبے میں 320 ارب کی کمی ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں:آئندہ مالی سال میں مہنگائی 12 فیصد ہو جائے گی، شاہد خاقان عباسی

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے نوماہ میں غیرملکی قرض میں پانچ ارب ڈالر کا اضافہ کیا ہے، یہ دنیا میں رائج ایک ماڈل ہے جس میں قرض لے کر تعمیرات کی جاتی ہیں، موٹرویز، انفراسٹرکچر بنایاجاتا ہے، نوکریاں پیدا کی جاتی ہیں، کاروبار چلایا جاتا ہے اور اس طرح قرض واپس کیے جاتے ہیں اور ملک کو ترقی دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ڈالر کے لحاظ سے ہماراجی ڈی پی میں 313 ارب ڈالر تھا، آج 280 ارب پر آچکا ہے، اس سے کیسے نکلا جائے، حکومت کے پاس کوئی سمت یا حکمت عملی نہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر نے کہا کہ پالیسی ریٹ یا شرح سود 6 فیصد سے سوا 12 فیصد پر پہنچ چکا ہےجس کے اثرات ملک وقوم پر انتہائی منفی ہوں گے، جب شرح سود اتنی زیادہ ہوگی تو کون قرض لے گا اور کون کاروبار کرے گا کیونکہ حکومت خود سب سے زیادہ قرض لینے والی ہوتی ہے اور اس صورت میں حکومت کو قرض کی قسط ادا کرنے کے لیے زیادہ آمدن درکار ہوگی، جو ہے نہیں اور اس سے بینکوں کا دیوالیہ پن بڑھ جائے گا۔

شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ ملکی مجموعی قرض اور ادائگیوں میں 3600ارب اضافہ ہوا جس میں نجی شعبے کا قرض بھی شامل ہے، یہ قرض 30 سے 35 ارب پر جاپہنچا ہے اور حکومت کا بجٹ خسارہ 2260ارب سے 2894 ارب پر جاپہنچا ہے جو 28 فیصد اضافہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک سال کا تقابلی جائزہ قوم کے سامنے رکھا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے ملک کو کہاں چھوڑا تھا اور آج خارجہ اور قومی سلامتی پالیسی معیشت کے تابع ہوچکی ہیں، یا معیشت بچائیں گے یا فارن پالیسی بچائیں گے۔۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری خودمختاری بھی آج خطرے میں ہے، آج پاکستان کی خودمختاری کی بات ہے۔

پیٹرول کی عالمی منڈی میں قیمتوں کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پٹرولیم کی یہی سطح ہمارے دور میں تھی، اس وقت بھی 65 سے 70 کا برنٹ تھا، آج بھی وہی ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہماری معیشت کمزور ہوئی تو عسکری لحاظ سے بھی کمزور ہوں گے، آپ کی خارجہ پالیسی اور سلامتی پالیسی بھی کمزور ہوگی، آپ کی خودمختاری پر بھی اثر پڑے گا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024