ہواوے نے متعدد امریکی ملازمین کو برطرف کر دیا
چین کی معروف ٹیلی کام کمپنی 'ہواوے' نے اپنے ملازمین کو امریکی اداروں سے 'تکنیکی روابط' کو منسوخ کرنے کا حکم دیتے ہوئے اپنے چینی ہیڈ کوارٹر سے متعدد امریکی ملازمین کو برطرف کردیا۔
واضح رہے کہ ہواوے کی جانب سے یہ اقدام ایسے موقع پر سامنے آیا جب امریکا اور چین کے درمیان تجارتی و ٹیکنالوجی کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کا اصل ہدف ہواوے ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ میں 'فنانشل ٹائمز' اخبار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ہواوے کے چیف اسٹریٹجی آرکٹیکٹ ڈانگ وینشوان کا کہنا تھا کہ امریکی محکمہ تجارت کی فہرست، جس کے تحت امریکی اداروں کو سرکاری اجازت نامے کے بغیر ہواوے کو ٹیکنالوجی کے فروخت کی اجازت نہیں ہوتی، کے بعد ہواوے کے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ شعبے سے امریکی شہریوں کو 2 ہفتے قبل برطرف کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: ہواوے کا امریکی پابندی پر قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ
ان کا کہنا تھا کہ ہواوے اپنے ملازمین اور امریکی شہریوں کے درمیان بات چیت کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اخبار کے مطابق ہواوے میں امریکی ملازمین سے اپنے لیپ ٹاپ واپس کرنے اور کمپنی کی حدود چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔
تاہم ہواوے نے اخبار کی رپورٹ پر رائے دینے سے معذرت کرلی۔
چینی وزارت تجارت نے اعلان کیا ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں، اداروں اور اشخاص کے حوالے سے ہم بھی اپنی فہرست تیار کریں گے اور اس میں انہیں ڈالیں گے جو ان کے لیے 'ناقابل بھروسہ' ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی پابندی کے بعد کن کن کمپنیوں نے ہواوے سے تعلقات ختم کردیے؟
ان کا یہ اعلان ممکنہ طور پر امریکی بلیک لسٹ کا رد عمل ہے۔
نیوز بریفنگ کے دوران وزارت کے ترجمان گاؤ گینف کا کہنا تھا کہ 'ادارے اس وقت ناقابل بھروسہ ہوتے ہیں جب وہ مارکیٹ کے قواعد کی پاسداری نہ کریں، معاہدوں سے پیچھے ہٹیں اور چینی اداروں کی سپلائی کو روکیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ایسے اداروں کے خلاف اقدامات کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ 'اس فہرست کا مقصد طرفداری، تجارتی تحفظ اور چینی مفاد کا تحفظ ہے'۔
ہواوے پر پابندی، کب کیا ہوا؟
واضح رہے کہ کینیڈا نے گزشتہ سال امریکا کی درخواست پر 'ہواوے' کی ایگزیکٹو کو گرفتار کیا تھا۔
خیال رہے کہ امریکا کے سیکریٹری خزانہ اسٹیون مینیچ نے تجارتی تنازعات کے حل کے لیے جلد از جلد چین کا دورہ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’قومی سلامتی کو درپیش ناقابل قبول خطرات‘ اور ’امریکی عوام کے تحفظ‘ کو بنیاد بناکر صدارتی حکم کے ذریعے ملک بھر میں ہواوے کی مصنوعات کی خرید و فروخت پر پابندی لگادی تھی۔
وائٹ ہاؤس نے الزام لگایا تھا کہ چین، ہواوے کی مدد سے ملک کی خفیہ معلومات چوری کر سکتا ہے۔
اس ضمن میں امریکی محکمہ تجارت نے ہواوے کو بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کمپنی فون، ٹیلی کام، ڈیٹابیس اور دیگر الیکڑونک اشیا میں استعمال ہونے والے اہم امریکی آلات سے محروم ہوجائے گی۔
ادھر چین کی حکومت نے واضح کیا تھا کہ وہ امریکا کے ساتھ تجارتی امور پر مذاکرات کا خیر مقدم کرتی ہے، تاہم چین کے مفادات سے متصادم نکات پر ہرگز سمجھوتہ نہیں کیا جائےگا۔
ہواوے نے امریکی انتظامیہ کی جانب سے کمپنی کو بلیک لسٹ کیے جانے کے فیصلے کو امریکی عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے قانونی جنگ کو تیز کردیا۔
چینی کمپنی نے ایک درخواست دائر کرتے ہوئے اس کی مصنوعات پر نیشنل ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ کے تحت پابندیوں کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھایا ہے۔