• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm

صنعت کار ٹیکس چوری کے لیے جعلی اکاؤنٹس استعمال کرنے لگے

شائع May 30, 2019 اپ ڈیٹ May 31, 2019
اس اسکینڈل میں شوگر اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لوگ شامل ہیں — فائل فوٹو/اے ایف پی
اس اسکینڈل میں شوگر اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لوگ شامل ہیں — فائل فوٹو/اے ایف پی

اسلام آباد: وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف بورڈننگ آف ٹیکس بیس نے شوگر اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے بڑی تعداد میں سیلز اور انکم ٹیکس چوری کا انکشاف کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کام میں شوگر اور ٹیکسٹائل کے شعبے کے جعلی ادارے شامل ہیں جو مبینہ طور پر جعلی سیلز سے اربوں روپے کی ٹیکس چوری کرتے ہیں۔

ڈان کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق ٹیکسٹائل اور شوگر کمپنیاں ان کے لیے سامان لانے اور لے جانے والے ٹرانسپورٹرز کو جعلی فروخت ظاہر کرتے ہوئے اربوں روپے کی ٹیکس چوری کر رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر کا بےنامی اکاؤنٹس رکھنے والوں کےخلاف کارروائی کا فیصلہ

ایف بی آر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ 'متعدد افراد، جن کے شناختی کارڈ جعلی سیلز ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیے گئے تھے، کی جانب سے 20 کیسز میں حلف نامے جمع کروائے جاچکے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ان تمام افراد نے حلف نامے کے ساتھ کہا ہے کہ ان کے شناختی کارڈ کا غلط استعمال کیا گیا اور انہوں نے کبھی بھی اس طرح کی ٹرانزیکشنز نہیں کی ہیں'۔

اس اسکینڈل کا انکشاف اس وقت ہوا جب ایف بی آر نے متعدد مینوفیکچررز کی جانب سے جمع کروائی گئی ود ہولڈنگ اسٹیٹمنٹس اور کمپیوٹرائزڈ پیمنٹ رسیدوں کی جانچ پڑتال کی۔

یہ بھی پڑھیں: شبر زیدی کی بطور ایف بی آر چیئرمین تعیناتی چیلنج

جانچ پڑتال میں یہ بات سامنے آئی کہ مینوفیکچررز نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ 236 'جی' اینڈ 'ایچ' کے تحت ٹیکس کاٹے اور اسے سامان کو اٹھانے والے ڈرائیورز اور روزانہ کی بنیاد پر تنخواہ لینے والے مزدوروں کے نام پر جمع کروایا۔

دستاویزات کے مطابق 'یہ ٹرانزیکشنز کو چھپانے کا ایک طریقہ اپنایا گیا تھا جس کی وجہ سے مینوفیکچررز، ڈیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز ٹیکس چوری کرتے ہیں'۔

ایف بی آر کا کہنا تھا کہ ابتدائی چھان بین سے معلوم ہوا ہے کہ 100 سے زائد کمپنیوں میں اربوں روپے کی جعلی سیلز کی گئی ہیں۔

ادارے کا کہنا تھا کہ یہ کمپنیاں جعلی سیلز دکھا کر ٹیکس ڈپارٹمنٹ کو گمراہ کر رہی تھیں، تاکہ ٹیکس کی چوری کی جاسکے۔

حکام کا کہنا تھا کہ 'اس طریقے سے مینوفیکچررز ہول سیلر سے ریٹیلر کا منافع چھپا رہی تھی'۔

ایک اور ایف بی آر ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ کام زیادہ تر ڈائریکٹرز کی شناخت چھپانے کے لیے کیا جاتا ہے جو مبینہ طور پر ڈسٹربیوشن کمپنیاں بھی چلارہے ہوتے ہیں۔

ان انکشافات کے بعد ڈائریکٹوریٹ جنرل آف بروڈننگ ٹیکس بیس نے چیف کمشنرز کو اسکینڈل کے بارے میں بتانے اور مینوفیکچررز کی بدفعلی کی اطلاع دینے کے لیے خط لکھے۔

خط کے مطابق چیف کمشنرز کو بتایا گیا کہ یہ اقدامات ٹیکس چوری میں آتے ہیں جو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 اور سیلز ٹیکس ایکٹ کی خلاف ورزی ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ 'ایف بی آر اس فراڈ کی تحقیقات کر رہا ہے اور ٹیکس چوری میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024