• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ 8 روزہ جسمانی ریمانڈ پر سی ٹی ڈی کے حوالے

محسن داوڑ پر خر کمر چیک پوسٹ پر حملہ کرنے والے گروہ کی سربراہی کا الزام ہے — فائل فوٹو/ رائٹرز
محسن داوڑ پر خر کمر چیک پوسٹ پر حملہ کرنے والے گروہ کی سربراہی کا الزام ہے — فائل فوٹو/ رائٹرز

بنوں کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو 8 روزہ جسمانی ریمانڈ پر کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے حوالے کردیا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے خصوصی جج بابر علی خان نے پولیس کی جانب سے محسن داوڑ کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا منظور کی۔

انہیں 7 جون کو ریمانڈ ختم ہونے پر عدالت میں دوبارہ پیش کیا جائے گا جبکہ سی ٹی ڈی نے محسن داوڑ کی 30 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔

اس سے قبل میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو حراست میں لیا تھا۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق 26 مئی کو بویا میں قائم خرکمر چیک پوسٹ پر مشتعل ہجوم کی جانب سے حملے اور اس دوران 3 افراد کے ہلاک اور 15 افراد کے زخمی ہونے کے واقعے کے تناظر میں رکن قومی اسمبلی کو حراست میں لیا گیا تھا۔

واقعے کے حوالے سے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ محسن داوڑ اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر، جو پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما ہیں، چیک پوسٹ پر حملہ کرنے والے گروہ کی سربراہی کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: ’بویا واقعے کے تانے بانے گزشتہ ماہ چیک پوسٹ حملے سے ملتے ہیں‘

آئی ایس پی آر نے جاری بیان میں کہا تھا کہ 'مشتعل گروہ کچھ روز قبل گرفتار کیے جانے والے دہشت گردوں کے سہولت کار کو چھڑوانے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہتے تھے'۔

بعد ازاں رکن قومی اسمبلی اور پی ٹی ایم کے رہنماؤں نے ان دعوؤں کی تردید کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے فائرنگ نہیں کی جبکہ فوج پر مظاہرین پر فائرنگ کا الزام عائد کیا تھا۔

واقعے کے فوری بعد سیکیورٹی اداروں نے علی وزیر سمیت متعدد افراد کو گرفتار کیا تھا اور بعد ازاں انہیں ریمانڈ پر انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ کے حوالے کردیا گیا تھا، انہیں حملے کے دوران معمولی زخم آئے تھے۔

واقعے کے تناظر میں رکن قومی اسمبلی اور دیگر 7 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جس میں انسداد دہشت گردی 1997 ایکٹ کی دفعہ 7، پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302، 324، 353، 120 بی اور 109 کو شامل کیا گیا۔

مقدمے میں بتایا گیا کہ مظاہرین نے سیکیورٹی چیک پوسٹ پر پتھراؤ کیا اور علی وزیر اور محسن داوڑ کے مسلح ساتھیوں نے چیک پوسٹ پر فائرنگ کی۔

ریاست کی رٹ کو چیلنچ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، سیکریٹری دفاع

گزشتہ روز سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) اکرام الحق نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو آگاہ کیا تھا کہ شمالی وزیرستان کے علاقے بویا میں سیکیورٹی چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے کے تانے بانے گزشتہ ماہ فوجی چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے سے مل رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: علی وزیر 8 روز کیلئے 'سی ٹی ڈی' کے حوالے

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری دفاع نے کمیٹی کے سامنے واضح کیا تھا کہ ریاست کی رٹ کو چیلنچ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

سیکریٹری دفاع کا کہنا تھا کہ رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے 26 مئی کو 2 مشتبہ دہشت گردوں کی گرفتاری کے خلاف دھرنا شروع کیا جنہیں گزشتہ ماہ آرمی چیک پوسٹ پر حملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

لیفٹننٹ جنرل (ر) اکرام الحق نے کمیٹی کو آگاہ کیا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور قبائلی عمائدین میں معاہدہ طے پاگیا اور ایک مشتبہ شخص کی رہائی کے ساتھ دھرنا ختم کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا گیا، تاہم رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر نے اس معاہدے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی اور مظاہرین کو دھرنا ختم کرنے سے روک دیا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اراکین اسمبلی اور بویا میں قائم چیک پوسٹ پر تعینات فوجی جوانوں کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا جس کے بعد مظاہرین نے چیک پوسٹ پر پتھراؤ کیا اور فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 5 فوجی زخمی ہوئے جبکہ بعد میں انہوں نے چیک پوسٹ پر چڑھائی کرنے کی کوشش کی جس پر چوکی میں موجود فوجی اپنے دفاع میں فائرنگ کرنے پر مجبور ہوئے۔

مزید پڑھیں: چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں ایک سپاہی شہید، آئی ایس پی آر

کمیٹی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ چند لوگوں کو امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

اجلاس کے بعد قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ’کمیٹی خرکمر چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے کی متفقہ طور پر مذمت کرتی ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ مستقبل میں اس علاقے میں کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے گا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Sanan Khan007 May 31, 2019 07:57pm
میری رائے یہ ہے کہ 8 کے بجائے 16 دن ہوں جائے تو زیادہ بہتر ہو گا ۔شکریہ

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024