سعودیہ نے او آئی سی سے قبل خلیج تعاون کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا
سعودی عرب نے امریکا اور ایران کے مابین عسکری کشیدگی کے پیش نظر مکہ میں عرب ممالک اور مشرق وسطیٰ تعاون کونسل (جی سی سی) کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا۔
خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس سے محض چند روز قبل جی سی سی اجلاس میں سعودی عرب مشرق وسطیٰ کے ممالک کے سامنے ایران کے خلاف اپنے موقف کی حمایت حاصل کرے گا۔
مزید پڑھیں: ایران پر امریکی پابندیاں ‘معاشی دہشت گردی’ ہے، حسن روحانی
سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان نے مشرق وسطیٰ کے رہنماؤں اور عرب لیگ کے اراکین کو 30 مئی کو مکہ میں منعقدہ ہنگامی اجلاس کی دعوت دی۔
دوسری جانب عالمی میڈیا کے مطابق رکن ملک تہران نے تاحال او آئی سی میں شرکت سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
واشنگٹن میں عرب گلف اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ کے اسکالر حسین ابیش نے ریاض کے فیصلے پر کہا کہ ’سعودی عرب خلیج ممالک اور مسلمانوں کی حمایت اس خیال سے یکجا کررہا ہے تاکہ جارحیت یا سفارتی سطح پر (ایران) پر زور دے سکے‘۔
دوسری جانب پاکستان ریڈیو میں شائع رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی او آئی سی کی وزرا خارجہ کونسل مین شرکت کے لیے سعودی عرب روانہ ہوچکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایرانی حکومت تبدیل کرنے کی خواہش نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
ریاض روانگی سے قبل اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ وزرا کارجہ کے اجلاس میں او آئی سی کے ایجنڈے کو حتمی شکل دی جائے گی اور اجلاس میں مشرق وسطیٰ کے موجودہ سیاسی صورتحال کے امور زیر بحث آئیں گے۔
آفیشل ایجنڈے کے مطابق ’او آئی سی سمٹ مسلم ممالک کو درپیش موجودہ حالات او آئی سی کے رکن ممالک میں حالیہ پیش رفت پر بات کرے گا‘۔
خیال رہے کہ امریکا نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے منسوخ کرنے کے بعد تہران پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں۔
ایران نے جوہری معاہدے کے دیگر ممالک فرانس، برطانیہ، چین، روس اور جرمنی پر زور دیا تھا کہ وہ ایران کو معاہدے کی پاسداری پر آمادہ کرے ورنہ نتائج مایوس کن ہوں گے۔
مزید پڑھی: امریکا نے ایران کے ساتھ 4 دہائی پرانا سفارتی معاہدہ منسوخ کردیا
بعدازاں واشنگٹن نے ایران کی پاسداران انقلاب پر پابندی عائد کر کے عالمی دہشت گرد کی فہرست میں ڈال دیا تھا۔
اس کے بعد امریکا نے خلیج فارس میں بی 52 بمبار، جنگی بحری بیڑا اور 15 سو فوجیوں پر مشتمل دستے تعینات کردیئے ہیں۔
ایران کے ساتھ معاہدہ سابق صدر بارک اوباما کے دور میں کیا گیا تھا تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد مئی 2018 میں خود کو اس ڈیل سے علیحدہ کرلیا تھا۔