روہنگیا افراد کے قتل میں ملوث میانمار کے سپاہی ایک سال سے بھی کم مدت میں رہا
میانمار نے 2017 میں مغربی ریاست رخائن میں 10 روہنگیا مسلمانوں کو قتل کرنے والے 7 سپاہیوں کو قبل از وقت رہائی دے دی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق سپاہیوں کو گزشتہ سال نومبر میں رہا کردیا گیا تھا جس کا مطلب انہیں ملنے والی 10 سال کی سزا میں سے انہوں نے ایک سال سے بھی کم عرصہ جیل میں گزارا۔
انہیں فوجی مظالم کی تحقیقات کرنے والے 'رائٹرز' کے صحافیوں سے بھی کم وقت جیل میں گزارنا پڑا۔
صحافی وا لون اور کیاؤ سو او نے ریاستی راز حاصل کرنے کے الزام میں 16 ماہ جیل میں گزارے اور انہیں 6 مئی کو ایمنسٹی کے تحت رہا کیا گیا تھا۔
رخائن کے ستوے جیل کے چیف وارڈن ون نائنگ اور دارالحکومت کے سینیئر جیل حکام نئے پیی تو نے تصدیق کی کہ سپاہی کئی ماہ سے جیل میں نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: میانمار: فوج کے مظالم کی تحقیقات کرنے والے صحافی رہا
جیل حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'سپاہیوں کی سزا کو فوج کی جانب سے کم کردیا گیا تھا'۔
دونوں جیل حکام نے مزید تفصیلات دینے سے انکار کیا اور کہا کہ انہیں رہائی کی اصل تاریخ نہیں معلوم اور اس کا عوامی سطح پر اعلان بھی نہیں کیا گیا تھا۔
فوجی ترجمان زو من تن اور تن تن نیی نے معاملے پر رائے دینے سے انکار کیا۔
رخائن میں 2017 میں ہونے والے آپریشن کے بعد، جس کی وجہ سے 7 لاکھ 30 ہزار روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے، فوج نے بتایا تھا کہ انہوں نے 7 سپاہیوں کو سزا سنائی ہے۔
اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ کریک ڈاؤن، قتل عام کی نیت سے کیا گیا تھا اور اس میں کئی افراد کا قتل، خواتین کا گینگ ریپ اور گھناؤنے جرائم شامل تھے۔
میانمار نے ان واقعات کی تردید کی تھی اور حکام نے 7 افراد کو جیل میں ڈالنے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ میانمار میں سیکیورٹی فورسز کو کھلا اختیار حاصل نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار: روہنگیامسلمانوں کے قتل میں ملوث 7 فوجیوں کو 10 سال قید
فوج کے کمانڈر ان چیف سینئر جنرل من آنگ نے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے کو گزشتہ سال اپریل میں بتایا تھا کہ 'ہم ہر اس کیس کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں جس کی ہم تحقیقات کر سکتے ہیں'۔
انہوں نے بتایا تھا کہ '7 مجرمان کو سزا سنائی گئی ہے اور اگر کسی نے بھی کوئی جرم کیا ہے تو ہم اسے نہیں بخشیں گے'۔
فون پر رابطہ کیے جانے پر زن پائنگ سو نے تصدیق کی کہ وہ ان 7 سپاہیوں میں سے ایک ہیں اور اب آزاد ہیں، تاہم انہوں نے مزید معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں کہا گیا ہے کہ خاموش رہیں'۔