عید کا تہوار ملکی معیشت کے لیے 'لائف لائن' کیوں؟
عیدالفطر جہاں ایک مذہبی تہوار ہے وہیں یہ معاشی اعتبار سے خاصا اہم موقع ہوتا ہے۔ اس عید کو مسلم ممالک میں خریداری کا ایک بڑا سیزن بھی سمجھا جاتا ہے۔
عیدالفطر کے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ جاننے کے لیے عبدالرشید صاحب سے ملیے جو کراچی کے مضافاتی علاقے بنارس ٹاؤن میں رہتے ہیں۔ بنارس ٹاؤن میں بھارت کے شہر بنارس سے ہجرت کرکے آنے والوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ یہ تمام افراد کپڑے کے کاروبار سے وابستہ ہیں جو کہ ان کا آبائی پیشہ ہے۔ پاکستان میں ملبوسات کی سپلائی چین میں اس علاقے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
عبدالرشید صاحب کا مردانہ کپڑوں کی سلائی کا ایک چھوٹا مرکز یا یونٹ ہے جس میں 50 کے قریب خواتین کام کرتی ہیں۔ ویسے تو پورا سال ہی عبدالرشید صاحب کے پاس کام رہتا ہے مگر عید سے 5 ماہ قبل ان کے پاس کام میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے جس کے باعث محلے کی دیگر خواتین بھی ان کے کام کے ساتھ منسلک ہوجاتی ہیں۔
سلائی کا کام 2 شفٹوں میں چلانے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ آؤٹ سورسنگ کی جانب بھی منتقل ہوجاتا ہے اور متعدد خواتین سلائی کے کپڑے اپنے اپنے گھر لے جاتی ہیں، چند علاقہ مکینوں نے اپنے گھر پر ہی کپڑوں کی استری اور پیکنگ کا انتظام کیا ہوا ہے جہاں سلائی ہونے والے کپڑوں کو آخری شکل دی جاتی ہے۔ مگر اس پوری سرگرمی کا مرکز عبدالرشیدصاحب کا گھر ہے جہاں سے لوگ بغیر سلے کپڑے لے جاتے اور سلے ہوئے واپس لاتے ہیں، یوں ایک پوری سائیکل چل رہی ہے جس سے بے شمار لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
عبدالرشید نے اپنے بزنس ماڈل کو سپورٹ کرنے کے لیے ایک عجیب قسم کا نظام وضح کیا ہوا ہے۔ ان کی اہلیہ سلمیٰ باجی کے پاس محلے اور فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین ہر سال ایک کمیٹی ڈالتی ہیں۔ یہ کمیٹی ہر سال شوال میں ڈالی جاتی ہے۔ ہر ماہ ممبران مخصوص رقم سلمیٰ باجی کے پاس جمع کرواتے ہیں اور یہ کمیٹی رمضان المبارک میں کھلتی ہے۔
عبدالرشید کے لیے یہ کمیٹی اپنے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کمیٹی سے جمع ہونے والی رقم سے عبدالرشید آئندہ عید سیزن کی تیاری شروع کردیتے ہیں۔ وہ مارکیٹ سے نقد کپڑا خریدتے ہیں جس پر انہیں اچھی خاصی بچت ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اشیاء کی خریداری بھی نقد کرتے ہیں اور تیار ملبوسات بھی نقد ہی فروخت کرتے ہیں۔ اس طرح نہ وہ کسی کے مقروض ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی ان کا پیسہ لے کر بھاگ سکتا ہے جبکہ ورکنگ کیپیٹل انہیں کمیٹی کی صورت میں مل جاتا ہے۔
کمیٹی ڈالنے والی خواتین کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ عید کی خریداری کے لیے ان کی بچت ہوجاتی ہے اور وہ کسی قسم کی مالی دشواری کے بغیر عید کے موقع پر اپنی اور اپنے گھر کے لیے خریداری کرپاتی ہیں۔
عبدالرشید کا کہنا ہے کہ عیدالفطر کی خریداری ہی ان کے کاروبار اور ان سے وابستہ افراد کے روزگار کا اہم ذریعہ ہے کیونکہ مرد حضرات سال میں ایک ہی مرتبہ یعنی عیدالفطر پر کپڑے خریدنے کے لیے پیسے خرچ کرتے ہیں۔ عبدالرشید کا کہنا ہے کہ عیدالفطر کے لیے ہر سال بہت سوچ بچار کر کے ملبوسات میں استعمال ہونے والا کپڑے منتخب اور ڈیزائین تیار کیا جاتا ہے۔ چونکہ عیدالفطر قمری کلینڈر کے مطابق منائی جاتی ہے اس لیے ہر سال موسمی تغیر بھی پیدا ہوتا ہے لہٰذا کپڑوں کی تیاری کے دوران موسمی حالات کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔
آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عید الفطر کا موقع دراصل معیشت کے لیے ایک پیمانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ سارا سال جو تاجر محض اپنے اخراجات پورے کر پاتے ہیں، وہ عید پر خریداری کے سیزن میں بھرپور انداز میں اپنا مال فروخت کررہے ہوتے ہیں۔ سارے سال کے منافع میں گھاٹے یا اضافے کا پیمانہ درحقیقت یہی سیزن ہوتا ہے۔
عتیق میر کے مطابق شہر میں 20 سے زائد تجارتی مراکز پر عید کی خریداری ہوتی ہے۔ رمضان المبارک کے دوسرے عشرے کے بعد بازار رات بھر کھلے رہتے ہیں۔ عید شاپنگ کے لیے تمام مارکیٹوں میں خصوصی اقدامات بھی کیے جاتے ہیں۔
عتیق میر کا کہنا ہے کہ عید کے لیے آرڈر کی بکنگ کا سلسلہ تقریباً 6 سے 7 ماہ قبل ہی شروع ہوجاتا ہے اور عید سے 4 مہینے پہلے فیکٹری آرڈر لینا بند کردیتی ہے۔ عید کے حوالے سے ملبوسات اور دیگر سامان ماہِ رجب کے وسط میں بازار پہنچنا شروع ہوجاتا ہے۔ تقریباً 20 رمضان المبارک تک نِت نئی مصنوعات کو متعارف کروایا جاتا رہتا ہے۔
لوگ عید الفطر کے موقع پر ملبوسات، جوتے، چپل، میک اپ، زیورات کے ساتھ ساتھ گھروں کی آرائش کے لیے قالین، فرنیچر، پردے وغیرہ بھی خریدتے ہیں۔ تاہم گھریلو آرائشی اشیاء کی خریداری ملبوسات کے مقابلے میں کافی کم رہتی ہے۔
رمضان المبارک کے دوران پردوں، صوفوں اور دیگر فرنیچر کی فروخت بھی عام مہینوں کے مقابلے میں بڑھ جاتی ہے۔ رمضان المبارک میں فروخت کو جاری رکھنے کے لیے دکانوں پر موجود سیلز اسٹاف میں بھی اضافہ کیا جاتا ہے اور یوں عارضی طور پر ہی سہی لیکن ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں جس کے باعث عید الفطر کے موقع پر لوگوں کو اضافی آمدنی میسر ہوجاتی ہے۔
عید کی خریداری کا مجموعی کاروباری سرگرمی میں کتنا فیصد حصہ ہوتا ہے؟ اس سوال پر عتیق میر کچھ دیر خاموش ہوئے اور پھر بولے کہ اگر عید کی شاپنگ کا سیزن نہ ہو تو کراچی کی نصف مارکیٹیں بند ہوجائیں۔
میرا دفتر عبداللہ ہارون روڈ پر زینب مارکیٹ کے علاقے میں واقع ہے، یوں مجھے ہر سال عید کے موقع پر ہونے والی شاپنگ اور معاشی سرگرمی کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
رمضان المبارک میں 10ویں روزے کے بعد رات میں دکانیں کھلنا شروع ہوجاتی ہیں اور جیسے جیسے عید الفطر قریب آتی ہے خریداروں کا رش بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ رش اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ٹریفک پولیس دوسرے عشرے سے ہی رکشوں اور ٹیکسیوں کو فوارہ چوک سے زینب مارکیٹ کی طرف داخلے پر پابندی عائد کردیتی ہے جبکہ آخری عشرے میں فوارہ چوک سے عبداللہ ہارون روڈ تمام تر ٹریفک کے لیے بند کردی جاتی ہے۔
سڑک پر ہر طرف خریدار ہی خریدار ہوتے ہیں۔ سڑک بھی عملی طور پر ایک بازار میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ دکانوں میں رش کے ساتھ ساتھ عارضی لگے اسٹالوں پر بھی خریداروں کا رش دیدنی ہوتا ہے۔ ہمارے دفتر کا ایک ملازم گزشتہ 3 سال سے اسی سڑک پر اسٹال لگا کر مختلف اشیاء فروخت کرتا چلا آرہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ صرف 10 دن اسٹال لگانے پر اسے دفتر سے ملنے والی 3 ماہ کے برابر آمدنی ہوجاتی ہے، اس کے باوجود کہ پولیس اور بلدیہ کے اہلکاروں کو بھی بھاری رشوت دینا پڑتی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے امور میں کرنسی منیجمنٹ بھی شامل ہے اور اس کرنسی منیجمنٹ میں عیدالفطر کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ پاکستان میں صارف خریداری کا موقع عید الفطر کا ہوتا ہے اور رمضان المبارک میں کاروباری سرگرمی میں تیزی آجاتی ہے۔ نقد لین دین کی وجہ سے کرنسی نوٹوں کی طلب بڑھ جاتی ہے، زیرِ گردش کرنسی نوٹوں کی قلت پوری کرنے اور عید کے موقع پر عیدی دینے کے لیے نئے کرنسی نوٹ جاری کیے جاتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی کرنسی منیجمنٹ اپنی پالیسی میں رمضان المبارک اور عید کو اہمیت دیتا ہے۔ اسٹیٹ بینک رمضان المبارک کے دوران بڑے پیمانے پر اپنے نئے کرنسی نوٹوں کا اجراء کرتا ہے۔ یہ نئے کرنسی نوٹ بینک کاؤنٹر یا اے ٹی ایم کے ذریعے براہِ راست کھاتیداروں کو دیے جاتے ہیں۔ نئے کرنسی نوٹ صارفین کو جاری کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے گزشتہ 3 سال سے ایس ایم ایس سروس کے ذریعے فراہم کیے جارہے ہیں، اسٹیٹ بینک نے سال 2018ء کے دوران 360 ارب روپے، سال 2017ء کے دوران 342 ارب روپے اور سال 2016ء میں 237 ارب روپے مالیت کے نئے کرنسی نوٹوں کا اجراء کیا گیا۔
اس پوری بات کا اگر خلاصہ نکالنے کی کوشش کی جائے تو وہ یہ ہے کہ عید کا تہوار کئی لوگوں کے روزگار کا سبب بھی ہے۔ اگر عید کی خریداری کے موسم کو معیشت سے الگ کردیا جائے تو معیشت کا حجم بہت چھوٹا رہ جائے گا۔