مودی کی کامیابی، بھارت کو ’ہندو ریاست‘ کی شناخت دینے کا مشن مکمل؟
’ایک مخصوص گروپ کچھ بھی کرنے کے لیے سیکولرازم کا ٹیگ استعمال کرتا رہا، لیکن اب کوئی بھی سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر ملک کو دھوکا دینے کی ہمت نہیں کرے گا‘۔
یہ الفاظ ہیں بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کے، جو بھارتی تاریخ میں کانگریس سے ہٹ کر مسلسل دوسری بار الیکشن جیتنے والے سربراہِ حکومت ہوں گے۔
بھارتی وزیرِاعظم نے فتح کا جشن منانے کے لیے منعقد کی گئی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے مستقبل کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں پر اشارے دیے۔ انہوں نے کہا کہ کارکنوں نے صرف ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے کا جذبہ لے کر انتخابی مہم چلائی۔ دنیا کو چاہیے کہ اب وہ بھارت کو سپر پاور تسلیم کرلے۔
ہزاروں کارکنوں کے نعروں میں مودی کی فتح کی تقریر میں بھارت اور جنوبی ایشیا کے لیے کئی پیغامات چھپے ہیں۔ مودی کی سیاست پر جو لوگ نظر رکھے تھے ان کے لیے نہ یہ پیغامات نئے ہیں اور نہ انہیں سمجھنے میں کوئی دقت پیش آئی۔
بھارتی وزیراعظم کا دوسری مدت کے لیے منتخب ہونے کے بعد پہلی تقریر میں سیکولرازم کو نشانہ بنانا درحقیقت ملک کی شناخت بدلنے کا اعلان ہے۔ لوک سبھا الیکشن کا محور اس بار عام آدمی کے مسائل نہیں بلکہ بھارت کی شناخت تھی، اور بھارتی ووٹروں نے بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ووٹ دے کر بھارت کی شناخت پر فیصلہ دے دیا ہے۔
مزید پڑھیے: راہول گاندھی کا پارٹی سربراہی چھوڑنے کا امکان، رہنماؤں کے استعفوں کی بھرمار
بی جے پی نے الیکشن مہم کے دوران اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کو مسلم اکثریتی ریاست سے الیکشن لڑنے پر طعنے دیے۔ انہیں ہندو مخالف کہا گیا۔ بی جے پی کا سب سے بڑا الیکشن ایشو قومی سلامتی تھا۔ الیکشن سے چند ہفتے پہلے بالاکوٹ فضائی حملے کے سوچے سمجھے منصوبے نے مودی کی فتح میں بڑا کردار ادا کیا۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں جموں و کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا۔
آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند ہندو جماعتوں نے الیکشن سے پہلے رام مندر اور بابری مسجد تنازع پر بی جے پی کو ٹف ٹائم کی دھمکیاں دیں لیکن پھر بی جے پی کی طرف سے درپردہ پیغام رسانی کے بعد انتہا پسند تنظیموں نے اپنی مہم الیکشن نتائج تک روکنے کا اعلان کیا۔
بی جے پی نے انتہا پسند دھڑوں کو خوش کرنے اور اقلیتوں کو واضح پیغام دینے کے لیے دہشتگردی کے مقدمات میں ضمانت پر رہا ہونے والی سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بھوپال سے کانگریسی رہنما ڈگ وجے سنگھ کے مقابل امیدوار بنایا۔
یہ اقدام اس حوالے سے انتہائی اہم ہے کہ یہ ڈگ وجے سنگھ ہی تھے جنہوں نے انتہاپسند ہندو جنونیوں کی دہشتگردی پر منموہن حکومت میں کھل کر بات کی تھی اور پہلی بار ہندو دہشتگرد کی اصطلاح سامنے آئی تھی۔ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو ڈگ وجے سنگھ کے مقابل لانے پر مودی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں صاف کہا کہ یہ ہندو دہشتگردی کی اصطلاح سامنے لانے والوں کے لیے پیغام ہے۔
یہ وہی پرگیہ سنگھ ٹھاکر ہیں جنہوں نے مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈسے پر بحث چھیڑی اور اس قاتل کو ہیرو قرار دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گوڈسے آر ایس ایس کا پرچارک ہونے کے باوجود آج تک بھارت میں قاتل ہی قرار دیا گیا لیکن مودی نے پہلی مدت اقتدار میں یہ قضیہ بھی تمام کردیا، اور شاید عوام نے کسی حد تک ان کا ساتھ بھی دیا کیونکہ پرگیہ سنگھ 8 لاکھ سے زائد ووٹ لے کر انتخابات میں کامیابی حاصل کرچکیں۔
بی جے پی کے مدمقابل اپوزیشن کی بڑی جماعت کانگریس اور اس کی قیادت میں قائم اتحاد کو نریندر مودی نے اپنی وکٹ پر کھیلنے پر مجبور کردیا۔ کانگریس نے بیروزگاری، کسانوں کی خودکشیوں، نوٹ بندی سمیت اہم مسائل پر حکومتی کارکردگی پر زیادہ سوالات نہیں اٹھائے بلکہ غیر محسوس طریقے سے ملک کی دوسری بڑی جماعت مودی کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئی اور قومی سلامتی اور ہندوتوا کے معاملے پر مودی کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش میں بُری طرح مات کھا گئی۔
حالانکہ قومی سلامتی کے ایشو پر کانگریس نے درست سوالات اٹھائے۔ بالاکوٹ حملے کی ٹائمنگ اور اس کے نتائج پر بھی جو سوالات اٹھائے گئے وہ بالکل ٹھیک تھے لیکن بھارت میں بی جے پی نے حالات کچھ ایسے بنادیے تھے کہ الیکشن کے موسم میں یہ سوالات کانگریس کی حب الوطنی پر مودی کےالزامات کو مضبوط کرتے چلے گئے۔
ہندوتوا پر کانگریس کا سخت موقف نوجوان اور جذباتی ہندو ووٹروں کو ان سے دُور لے گیا۔ مودی نے راہول کو ہندو دشمن اور مسلم دوست کہا تو راہول ان الزامات پر دفاعی پوزیشن میں چلے گئے۔ راہول نے الزامات دھونے کے لیے مندروں کی یاترا اور پوجا پاٹھ شروع کردی۔ اس طرح خدا ہی ملا نہ وصال صنم، کے مصداق راہول سیکولر ووٹر کو بھی مودی کی جھولی میں ڈال گئے۔
مودی کی جیت اور بھارت میں مسلمانوں کا مستقبل
مودی کی تقریر میں راہول اور سیکولرازم کو نشانہ بنانا واضح کرتا ہے کہ بھارت کی سیکولر شناخت ختم کرکے اگلے 5 سال ملک کو ہندو راشٹر میں ڈھالنے کا کام کیا جائے گا۔ مودی اس کی بنیاد پہلے دور میں رکھ چکے ہیں۔ کاشی وشوا ناتھ مندر کے لیے کوریڈور کی تعمیر شروع ہوچکی ہے۔ اس مندر کے ساتھ کھڑی مسجد کو بھی بابری مسجد جیسے خطرات کا سامنا ہے۔ کوریڈور کی تعمیر کے دوران مسجد کے باہر بنے چبوترے کو گرا کر مسلمانوں کی مزاحمت کو جانچ لیا گیا ہے۔
گنگا کی صفائی بھی ماحولیاتی منصوبے سے زیادہ ایک مذہبی معاملہ ہے۔ رام مندر بابری مسجد تنازع مودی کے اگلے 5 سال کا اہم ترین ایجنڈا ہے جو سپریم کورٹ میں ہونے کی وجہ سے پچھلے 5 برسوں میں نمٹایا نہ جاسکا۔
بھارت کی مسلم کمیونٹی کا بڑا ووٹ بینک اس الیکشن میں خاموشی کے ساتھ بی جے پی کو ووٹ دے کر گھروں میں دبک گیا ہے۔ وہ اگلے 5 برسوں میں مزید سماجی تنہائی اور معاشی مشکلات کے عذاب سے ڈرے ہوئے ہیں۔ بابری مسجد کیس میں ایک مدعی حاجی محبوب احمد خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ انہیں مسجد کے مقام پر مندر بنانے پر اب عتراض نہیں ہوگا بس مسلمانوں کو سکون سے جینے دیا جائے۔
مودی کا دنیا کو یہ کہنا کہ اب بھارت کو سپر پاور تسلیم کیا جانا چاہئے، ان کی خارجہ پالیسی کا عکاس ہے۔ سپر پاور کہلوانے کے شوقین مودی قومی سلامتی کے ایشو پر الیکشن جیت کر آئے ہیں۔ مودی نے پہلا الیکشن بھی قومی سلامتی کے ایشو پر لڑا اور اس وقت کے مرنجاں مرنج وزیراعظم منموہن سنگھ کو کھلے عام یہ طعنہ دیتے رہے کہ پاکستان کا مقابلہ کرنے کے لیے چھپن انچ کا چوڑا سینہ چاہئے۔
مودی سے متعلق غلط فہمی
سپر پاور ہونے کے زعم میں مبتلا نریندر مودی کے متعلق کچھ پاکستانی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ دوسری مدت میں وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالیں گے اور مسائل کے حل کی طرف بڑھیں گے۔ 2014ء کی نسبت زیادہ بڑا مینڈیٹ لے کر آنے والے مودی جو کانگریس کو قیامِ پاکستان کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، ان سے امیدیں وابستہ کرنا دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں۔
بھاری مینڈیٹ کے زعم میں مودی اب کسی سیانے کے مشورے پر کان نہیں دھریں گے اور خطے میں بھارتی ریشہ دوانیوں میں اضافہ ہوگا۔ہندوتوا دراصل ہندو بالادستی کا نظریہ ہے۔ اگر مودی بالادستی کے فلسفے سے ہٹنے کی کوشش بھی کریں گے تو آر ایس ایس کے بڑے انہیں بھٹکنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
جموں و کشمیر کی جداگانہ حیثیت کو خطرہ؟
بھارتی وزیرِاعظم سے مذاکرات کی امیدیں رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ جموں و کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کرنا بی جے پی کے منشور کا حصہ ہے۔ آرٹیکل A)35) اور آرٹیکل 370 اب تک کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس بار مودی کا بھاری مینڈیٹ انہیں آئین میں ترمیم کا حوصلہ بھی دے گا اور ترمیم پر بھی اکسائے گا۔
نریندر مودی کی فتح اکثریتی حب الوطنی کے طور پر دیکھی جا رہی ہے جو اقلیتوں کے لیے آنے والے دنوں میں مزید تشدد اور مشکلات کو جنم دے گی۔ اس فتح کو بھارت کے نسلی جمہوریت میں ڈھلنے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ نسلی جمہوریت کا تصور اسرائیل کے پولیٹیکل سائنٹسٹ سیمی سمووا نے 2002ء میں پیش کیا۔ نسلی جمہوریت، نسلی پہچان اور یورپ سے درآمد شدہ پارلیمانی نظام کا امتزاج ہے۔ نسلی جمہوریت میں اکثریت کے باوجود ایک قوم کو بقا کا خطرہ دکھا کر اکٹھا کیا جاتا ہے اور اقلیتوں کے حقوق پر پابندیاں لگ جاتی ہیں۔
آزادی کے بعد بھارت کے اولین رہنماؤں نے ملک کو متحد رکھنے کے لیے سیکولرازم کا سہارا لیا اگرچہ بھارت کی بانی اور سیکولرازم کی دعویدار کانگریس کے ادوار میں بھی اقلیتوں کے قتلِ عام کے واقعات ہوئے لیکن بھارت اپنے چہرے پر پڑا سیکولرازم کا نقاب بچانے میں کامیاب ہوتا رہا۔ نریندر مودی کے اگلے 5 سال میں یہ نقاب مکمل سرکتا ہے یا نہیں؟ مودی کی تقریر کے بعد یہ جاننے کے لیے 5 سال انتظار کی ضرورت نہیں رہی۔
کیا بھارت پاکستان کا پانی بند کردے گا؟
پاک بھارت آبی تنازع نریندر مودی کی دوسری مدت اقتدار میں مزید شدت پکڑے گا۔ نریندر مودی پہلی مدت میں دریاؤں کو لنک کرنے سے متعلق 90 ارب ڈالر مالیت کا ایک منصوبہ شروع کرچکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مودی اور ان کے وزیر برائے آبی وسائل نتن گڈکڑی کئی بار پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران نتن گڈکڑی نے 3 دریاؤں کا پانی بھارت کے استعمال میں لانے کے لیے اسٹڈی شروع کیے جانے بھی انکشاف کیا۔
انتخابات سے پہلے فروری کے تیسرے ہفتے میں نتن گڈکڑی کی جانب سے پاکستان کا پانی روکنے کے لیے اسٹڈی شروع کرنے کا انکشاف مودی کی پالیسی کو واضح کرتا ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے کو اگر یکطرفہ ختم کرنے کا اعلان نہ بھی کرے تو وہ کمیشن کے اجلاس بلانا بند کرسکتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ پانی کا ڈیٹا شئیر کرنا بند کرسکتا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کو اچانک سیلاب جیسے خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
دریائے راوی کا پانی مکمل طور پر روکنے سے متعلق بہت پہلے ہی کام مکمل ہوجانا تھا، لیکن یہ کام اس لیے نہیں ہوسکا کیونکہ بھارتی ریاستوں کے درمیان پانی کے استعمال کا تنازع تھا۔ مودی حکومت نے بھارتی پنجاب اور دیگر ریاستوں کے درمیان یہ تنازع کسی حد تک حل کرلیا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت میں اب سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ ختم کرنے کے مطالبات بڑھتے جارہے ہیں۔
پاکستان پانی کی کمی کے شکار ملکوں میں سے ایک ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان کو 2025ء تک 31 ملین ایکڑ فٹ پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے زیرِ زمین پانی کے ذخائر بھی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں جبکہ تربیلا اور منگلا ڈیم میں پانی کے ذخیرے کی گنجائش بھی کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ان حالات میں اگر بھارت دریاؤں کا رخ موڑنے یا پاکستان کے حصے کا پانی استعمال کرنے کے منصوبوں پر عمل کرتا ہے تو پاکستان قحط سالی کا شکار ہوسکتا ہے۔
جموں و کشمیر کے تنازع کی شدت بھی پانی کی وجہ سے ہے۔ جہلم اور چناب پاکستان میں کشمیر کے راستے سے آتے ہیں۔ کشمیر اور پانی دونوں ہی پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں۔
آنے والے عشروں میں بھارت، نیپال، بھوٹان اور پاکستان میں 400 ڈیم زیرِ تکمیل ہیں۔ چین کے تبت بارڈر پر اس کے علاوہ مزید ڈیم بھی بن سکتے ہیں۔ اگر ڈیموں کے یہ تمام منصوبے مکمل ہوجاتے ہیں تو یہ خطہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ڈیموں والا خطہ بن جائے گا۔ ان ڈیموں کی تعمیر سے خطے میں بین الاقوامی کشیدگی اور جیوپولیٹیکل خطرات بھی بڑھ جائیں گے۔ بھارت، چین، پاکستان اور بنگلہ دیش دریاؤں کے پانی پر بڑے تنازعات کا شکار ہوں گے۔ پانی کے یہ تنازعات جنگوں میں بدل سکتے ہیں اور پورے خطے کو خطرے میں جھونک سکتے ہیں۔