فرشتہ قتل کیس: وزیر اعظم کے حکم پر پولیس افسران گرفتار
وزیر اعظم عمران خان نے 10 سالہ بچی فرشتہ کے اغوا، مبینہ ریپ اور قتل کے کیس میں ایس ایچ او شہزاد ٹاﺅن اسلام آباد کی گرفتاری میں تاخیر کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز اور انسپکٹر جنرل پولیس سے وضاحت طلب کر لی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس اور اسلام آباد انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے شہزاد ٹاؤن کے سب ڈویژنل پولیس افسر کی معطلی اور سپرنٹنڈنٹ پولیس (دیہی علاقہ جات) کی برطرفی کا حکم دیا۔
جس پر پولیس کے اعلیٰ حکام نے فوری کارروائی کرتے ہوئے شہزاد ٹاؤن تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) اور اس کیس کے تفتیشی افسر کو گرفتار کرلیا۔
مذکورہ گرفتاریاں رات کو کی گئیں، دونوں افسران کو گرفتاری کے بعد پولیس اسٹیشن منتقل کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں 10 سالہ بچی کا زیادتی کے بعد قتل،اہلخانہ کا شدید احتجاج،2 ملزمان گرفتار
اس کے ساتھ وزیراعظم نے آئی جی پی اور ڈی آئی جی آپریشنز سے اس قتل کی رپورٹ بھی طلب کرلی۔
پاک-فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ معصوم فرشتہ کا بہیمانہ قتل انتہائی قابل مذمت ہے۔
ترجمان پاک-فوج نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور اس سلسلے میں پاک-فوج ہر قسم کی مدد کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنی نوجوان نسل کو ان بھیڑیوں سے بچانے کے لیے ہمیں اُٹھ کھڑا ہونا ہو گا۔
پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج
قبل ازیں وفاقی دارالحکومت کے علاقے شہزاد ٹاؤن میں کیس میں غفلت برتنے پر علاقے کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او)، سب انسپکٹر محمد عباس رانا اور دیگر پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔
متاثرہ بچی کے والد غلام نبی نے تھانہ شہزاد ٹاؤن میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 166 (سرکای ملازمین کا کسی شخص کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے قانون کی نافرمانی کرنا) کے تحت ان پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔
مزید پڑھیں: ہری پور: جنسی زیادتی کے بعد 7 سالہ بچہ قتل
ایف آئی آر میں مدعی نے مؤقف اختیار کیا کہ متاثرہ بچی کے اہلِ خانہ نے فرشتہ کی تلاش میں مدد کے لیے متعدد مرتبہ پولیس سے رابطہ کیا لیکن ان کی داد رسی کر نے کے بجائے ایس ایچ او نے کہا کہ ان کی بچی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔
مدعی کا مزید کہنا تھا کہ فرشتہ کی گمشدگی کا مقدمہ درج کرنے کے بجائے پولیس اہلکار انہیں ٹالتے رہے اور ستم ظریفی یہ کہ گمشدہ بچی کے بھائی سے تھانے کی صفائی بھی کروائی گئی۔
ایف آئی آر میں فرشتہ کے والد نے استدعا کی کہ اپنے فرائض سے غفلت برتنے کے اس واقعے میں ملوث اہلکاروں اور ایس ایچ او کے خلاف مجرمانہ غفلت برتنے پر کارروائی کی جائے۔
فرشتہ گمشدگی اور قتل
خیال رہے کہ اسلام آباد کے علاقے شہزاد ٹاؤن کی رہائشی 10 سالہ فرشتہ 15 مئی کو گھر سے باہر نکلی لیکن واپس گھر نہ پہنچی۔
بچی کی گمشدگی کے بعد اہلِ خانہ نے اپنی مدد آپ کے تحت اس کی تلاش کی اور اندراجِ مقدمہ کے لیے پولیس سے رابطہ کیا لیکن پولیس نے اہلِ خانہ کی درخواست پر مقدمہ درج کرنے کے بجائے کہا کہ وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان: بچوں کے جنسی استحصال میں 33 فیصد اضافہ
جس کے بعد رکنِ قومی اسمبلی کی مداخلت اور ان کی جانب سے مذکورہ معاملہ انسپکٹر جنرل پولیس محمد عامر ذوالفقار خان کے سامنے اٹھانے پر گمشدگی کے 4 روز بعد 19 مئی کو واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا۔
مقدمے کے اگلے ہی روز بچی کی مسخ شدہ لاش تمہ گاؤں کی جھاڑیوں سے برآمد ہوئی جب گاؤں کے کچھ افراد نے لاش دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی۔
بعدازاں متاثرہ بچی کے والد غلام نبی نے اس کے کپڑوں کی مدد سے لاش کی شناخت کی۔
پولیس کے مطابق لاش 4 روز پرانی تھی اور امکان ظاہر کیا گیا کہ اسے گینگ ریپ اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا تاہم اس کی تصدیق اور لاش کی حتمی شناخت کے لیے ڈی این اے کے نمونے حاصل کرلیے گئے جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنا بھی باقی ہیں۔
لواحقین کے احتجاج کرنے پر تھانہ شہزاد ٹاؤن کے ایس ایچ او کو معطل کردیا گیا جبکہ پولیس حکام نے مقدمہ درج کرنے میں تاخیر کی تردید کی۔
تاہم پولیس حکام نے قانونی کارروائی میں تاخیر کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف محکمہ جاتی تحقیقات کرنے کا بھی حکم دے دیا۔
علاوہ ازیں ضلعی مجسٹریٹ نے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیتے ہوئے احکامات جاری کردیے جس کے مطابق 10 سالہ فرشتہ کو نامعلوم افراد نے علی پور گاؤں میں 15 مئی کو اس کے گھر کے باہر سے اغوا کیا۔