قبائلی اضلاع اور انتخابات
13 مئی بروز پیر قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر 26ویں آئینی ترمیم کا بل منظور کیا۔ شاید پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ کسی پرائیوٹ رکن کے بل کو کسی بھی قسم کی مخالفت کے بغیر منظور کیا گیا۔
جمعے کے روز شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے بل پیش کیا جس کی حکومت اور حزب اختلاف دونوں نے حمایت کی۔ ترمیم کے تحت سابقہ فاٹا کی قومی اسمبلی اور خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اب قبائلی اضلاع کی قومی اسمبلی میں 12 نشستیں ہوں گی، اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں 24 عام نشستیں ہوں گی۔ ترمیم کی منظوری کے بعد عملی طور پر قبائلی اضلاع میں صوبائی انتخابات 6 سے 8 ماہ تک ملتوی ہوچکے ہیں۔
پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) پر لگائے جانے والے حالیہ الزامات کے بعد حکومت کی جانب سے اس سنگ میل کی حیثیت رکھنے والے فیصلے کی ہر طرح سے حمایت باعث حیرت ہے۔ معقول عناصر نے ہمیشہ سے ہی پی ٹی ایم کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ سینٹ کمیٹی کی ان کی قیادت کے ساتھ ملاقات اس ضمن میں پہلا قدم تھا، لیکن ایسا الزامات سے قبل ہوا تھا۔ تاہم معقولیت سے کام لیا گیا اور حکومت نے سختی کے بجائے نرمی سے کام لیا۔ پہلی بار قومی اسمبلی نے یہ ثابت کیا کہ یہ نان کنفارمسٹس (منحرف عناصر) کی حقیقی محرومیاں قانون سازی کے ذریعے ختم کرکے انہیں مرکزی دھارے میں لاسکتی ہے۔
25 ویں ترمیم کے تحت سابقہ فاٹا کی حلقہ بندیاں اور انتخابات عام انتخابات کے ایک سال کے اندر اندر ہونا تھے۔ آئینی ہدایات کی پیروی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے انتخابی شیڈول جاری کیا گیا جس کے مطابق 2 جولائی کو قبائلی اضلاع میں انتخابات ہونا تھے۔ اوپر بیٹھے حکام نے پتہ نہیں کیا سوچتے ہوئے مقررہ دنوں کے آخری حصے تک اس عمل کو کھینچا۔ قبائلی لوگوں بالخصوص نوجوانوں میں انتخابات کو لے کر کافی جوش و خروش نظر آتا ہے، لیکن اب انہیں اس کے لیے تھوڑا اور انتظار کرنا پڑے گا۔
اگرچہ بڑی سطح پر اس اقدام کا خیرمقدم کیا گیا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں التوا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انہیں حکومتی ارادوں کو لے کر خدشات لاحق ہیں۔ ان کے لیے تعداد معنی نہیں رکھتی، وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے دو رکن اسمبلی نے ان کے علاقے سے متعلق مسائل کو پارلیمنٹ میں سابقہ فاٹا کے 12 اراکینِ اسمبلی سے زیادہ اطمنان بخش انداز میں اٹھایا۔
قبائلی اضلاع کے لیے یہ تبدیلیوں کا وقت ہے، اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں زیادہ نمائندگی ہونے سے انضمام کے عمل، جیسے فنڈنگ، انسانی وسائل کی تقرری/ایڈجسمنٹ اور قانونی مسائل وغیرہ پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
جس انداز میں حکومت کی اس عظیم انضمامی عمل میں جٹی ہوئی ہے وہ چشم کشائی کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ مثلاً این ایف سی ایوارڈ میں 3 فیصد حصہ یعنی 100 ارب روپے سے بھی زائد رقم کا دیا جانا۔ وہ مانتے ہیں کہ سابقہ فاٹا کے اراکین اسمبلی اضافی نشستوں کی زبردست ترغیب کے ذریعے انتخابی تاخیر پر راضی کرلیا گیا تھا۔
پھر کچھ سازشی نظریہ ساز بھی ہیں جو ان اراکین اسمبلی کی اس طرح تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی صف میں کھڑا کرنے اور اس قدر جلدی اور آسانی سے پارلیمنٹ میں ترمیم کو منظور کروانے کی صلاحیت پر شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ جن جماعتوں نے انضمام کی مخالف تھیں انہوں نے بھی بل کی حمایت کی۔ ایوان میں کسی ایک شخص نے بھی اس بنیاد پر بل کو مسترد نہیں کیا کہ یہ کسی ’غیر ملکی ایجنٹ‘ کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔ ان کے لیے اہم ترین سوال یہی ہے کہ یہ سب ہوا کیسے۔
اراکین اسمبلی کی حقیقی درخواست یہ تھی کہ جب 2017ء کی مردم شماری ہوئی اس وقت قبائلی اضلاع میں رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد کو عارضی نقل مکانی کا سامنا تھا، لہٰذا ان کی تعداد کو گنا ہی نہیں گیا۔ ان کا ماننا ہے کہ آبادی کی حقیقی تعداد شمار کردہ آبادی سے کہیں زیادہ ہے، چنانچہ اسمبلیوں میں ان کی نشستوں کی تعداد کا فیصلہ آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے۔
فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد مردم شماری کے اعداد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، یوں ان کی دلیل اور بھی پختہ ہوجاتی ہے۔ تاہم نشستوں کی تعداد میں اضافہ ناقص مردم شماری کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ قبائلی علاقہ جات کی جانب سے دی جانے والی قربانیوں کے صلے کے طور پر کیا گیا ہے۔
اگرچہ نشستوں کی تعداد میں اضافہ تو ہوتا ہے مگر اراکین اسمبلی کی جانب سے ناقص مردم شماری کے حوالے سے درخواست قبول نہیں کی جاتی۔
قبائل کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ ان کی قربانیوں کو تسلیم کیا جاتا ہے اور انہیں اس کا صلہ بھی ملے گا۔ وہ گلے سے لگانے کے مستحق ہیں، تا کہ ان کے زخم بھر سکیں۔ بدقسمتی سے یہ باتیں زیادہ حقیقت کا روپ نہیں لیتی ہیں. تمام تر زمینی سرگرمیاں صوبائی حکومت سے منسلک ہیں۔ یوں اراکین صوبائی اسمبلی کی اشد ضرورت ہے۔
سابقہ فاٹا کے اراکین اسمبلی کے بارے میں لوگ چاہے جو کچھ بھی کہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انہی کی، بالخصوص رکن اسمبلی داوڑ کی کوششوں سے نشستوں میں اضافہ ممکن ہوا۔ اب جبکہ بل منظور ہوچکا ہے، توجہ کا مرکز حلقہ بندیاں ہونی چاہئیں۔ اگر نشستوں کو موجودہ مردم شماری کے تحت تقسیم کیا گیا تو پھر وہ افراد جو مردم شماری کے باضابطہ اعداد میں شامل نہیں ہیں وہ گنتی میں ہی نہیں آئیں گے اور یوں نشستوں میں اضافے کا حقیقی مقصد حاصل ہی نہیں ہوپائے گا۔
آبادی (جو شمار نہیں ہوئے انہیں شامل کرتے ہوئے) کی حقیقی تعداد کتنی ہے، اس کا تعین کرنا ایک حقیقی امتحان ہے۔ تاہم تمام مشکلات کے باوجود قبائلی اضلاع کو (اگرچہ کافی سست رفتاری کے ساتھ) بہتری کی جانب گامزن کیا جا رہا ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں سابقہ فاٹا کی نمائندگی کرنے والے چند سرگرم اراکین صوبائی اسمبلی اسے صحیح سمت دینے کے ساتھ دوستانہ انداز میں انضمام کے اہداف کو حاصل کرنے میں مثبت کردار ادا کریں گے۔
یہ مضمون 19 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔