• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

کراچی کا کون سا ماسٹر پلان؟

شائع May 17, 2019
لکھاری این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے شعبہ پلاننگ اینڈ آرکیٹکچر کے چیئرمین ہیں۔
لکھاری این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے شعبہ پلاننگ اینڈ آرکیٹکچر کے چیئرمین ہیں۔

کراچی میں سرکاری زمین کے مبینہ غیر قانونی استعمال اور تجاوزات سے متعلقہ معاملات کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی بینچ نے سرکاری عہدیداروں کو شہر کے اندر اس کے ’اصل ماسٹر پلان‘ کے مطابق اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ کراچی 1947ء کے بعد سے کئی ترقیاتی پلانز سے فائدہ اٹھا چکا ہے، مگر حکومتِ سندھ نے کسی ایک کے بارے میں بھی باضابطہ طور پر مطلع نہیں کیا۔ اگرچہ تھوڑے بہت کام شہر کے مختلف ترقیاتی پلانز کے دائرے میں آتے ہیں مگر شہری ترقی اور گورننس کے حوالے سے کوئی ایک بھی قانونی طور واجب التعمیل پلاننگ دستاویر موجود ہی نہیں تھا۔

مثلاً، 1947ء میں جب یہ شہر پاکستان کا درالحکومت بنا تو اس کے انتظامی کاموں کو سائنسی خطوط پر استوار کرنے کی خاطر 1951ء میں ’گریٹر کراچی پلان‘ مرتب کیا گیا۔ اس پلان میں گڈاپ سے قریب 20 کلومیٹر دور کیپیٹل کامپلیکس بنانے کی تجویر دی گئی، جو تیز رفتار ریل اور زمینی رابطوں کے ذریعے موجودہ شہر سے جوڑا جانا تھا۔

جب دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا تو یہ اسکیم بڑی حد تک غیر مؤثر بن گئی۔ مہاجرین کی آمد کے پیش نظر 1958ء میں گریٹر کراچی ریسیٹلمنٹ پلان مرتب کیا گیا، جس کا مقصد شہر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے وسیع رقبے پر محیط صنعتی اور تجارتی مقامات کے ساتھ ہر پہلو سے مکمل سیٹلائٹ ٹاؤنز میں نئے آنے والوں کو رہائش کی فراہمی تھا۔ لانڈھی کورنگی اور نارتھ کراچی ان دو ابتدائی مقامات میں شامل تھے، مگر رہائشی علاقوں میں رہائشیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور سست رو صنعتی ترقی، جو کہ قومیانے کے عمل کے بعد اور بھی سست روی کا شکار ہوگئی، سے ہم آہنگ نہ ہوسکی۔

1973ء میں کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ماسٹر پلان محکمے نے اعداد شمار اکھٹا کرنے اور تجزیوں کے ایک طویل مرحلے کے بعد ایک جامع ترقیاتی پلان مرتب کیا۔ اس میں شہریوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مستقبل کے ترقیاتی رجحانات کا خاکہ پیش کیا گیا اور نئے رہائشی، تجارتی اور صنعتی علاقوں کے لیے مقامات اور اس کے ساتھ ساتھ انفرا اسٹریکچر کی نشاندہی کی گئی۔

اسی محکمے نے 1986-2000 کے لیے اگلا پلان بھی مرتب کیا جس میں قومی و بین الاقوامی ماہرین کی رائے کو بھی شامل رکھا گیا۔ افسوس کے ساتھ ان میں سے کسی بھی پلان کو قانونی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ بلدیاتی اداروں کو ضم کیے جانے کے بعد شہری ضلعی حکومت (جس کا خاتمہ ہوچکا ہے) نے کراچی اسٹریٹجک ڈیولپمنٹ پلان (کے ایس ڈی پی) 2020ء مرتب کیا۔ سٹی کونسل نے اس پلان کو تو اپنایا مگر کچھ سالوں بعد صوبائی حکومت کی جانب سے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے پلان کے خاتمے کے ساتھ ادارہ قبولیت کھو بیٹھا۔

موجودہ حقائق اور متوقع تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے شہر کا وژن فراہم کرنا ایک عام منطق ہے۔ 1986-2000 کا پلاننگ دستاویز 6 خاص منظرناموں اور ان کے حوالے سے حکمت عملیوں پر مشتمل تھا: ترقی یافتہ علاقوں کی خالی جگہوں پر تعمیرات اور انہیں آپس میں جوڑنے کا عمل، کم سے متوسط شہری پیداوار کا تصور، (محتاط انداز میں) پیداور نہ ہونے کی توقع اور انفرااسٹریکچر کے معیار کو بہتر بنانے کا عزم، کم آمدن والے افراد کی آبادیوں کی ترقی پر توجہ، بعد از ترقی کے لیے خصوصی طور پر منصوبہ بندی، اور کینٹومنٹ اور رہائشی سوسائٹیوں کو خدمات کی فراہمی۔

کے ایس ڈی پی کے پاس بڑھتی ہوئی گاڑیوں کے پیش نظر ٹرانسپورٹیشن اور نقل و حرکت کے لیے کئی کارآمد آپشنز موجود تھے۔ موجودہ صورتحال شہر کے ایک ایسے تصوراتی وژن کا تقاضا کرتی ہے جس میں معاشرے کے تمام حلقوں کی مشاورت شامل ہو۔ اس وژن کو آہستہ آہستہ اور وقت فوقتاً ترقیاتی اور انتظامی پلانز کی شکل دی جاسکتی ہے تاکہ اسے زماں مکاں کے اعتبار سے پرکھا جائے۔

قانونی تحفظ رکھنے والا پلان مارکیٹ قوتوں، صارفیت اور عالم گیریت کے بڑھتے اثر ورسوخ کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مارکیٹ قوتیں ناگزیر طور پر زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے بہترین حالات کی تلاش میں رہیں گی، اور ہر اس سرگرمی میں ہر قسم کے اسٹیک ہولڈر کو کھلم کھلا اور پوشیدہ طور پر بھی اپنے ساتھ شامل کرتے ہوئے حصہ لے گی جس میں پرکشش نفع شامل ہو۔

ریئل اسٹیٹ ہو یا تجارت، کنسلٹنگ ہو یا ٹھیکداری، بروکریج ہو یا بینکاری، صحت ہو یا پھر تعلیم ہر شعبہ اور میدانِ عمل سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ صرف فِٹ ترین عناصر ہی اپنا وجود قائم رکھ پاتے ہیں جبکہ بڑی تعداد میں دیگر افراد منفی اثرات کی زد میں آجاتے ہیں۔ تاہم اگر پلان کو قانونی طور پر متسحکم کیا جائے تو اس کے ہر ایک منصوبے یا پروگرام پر نگرانی اور جائزے کا ایسا بندوبست کرنا ممکن ہوگا جو ضروری نہیں کہ پلان کی شرائط میں شامل ہو۔

شہر کے تعمیراتی ماحول کا تصور اس کے سٹی پلان کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کیا جائے اور اس پر عمل درآمد کا کام بلڈنگ کنٹرول اداروں کے ذمے ہو تاکہ وہ یہ یقینی بنائیں کہ شہر معقول انداز میں ترقی اور فعال ہو۔ اگرچہ 1973-1985 اور 1986-2000 نکتہ نظر، مندرجات اور نتائج کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف تھے مگر یہ دونوں ترقیاتی کاموں کی رہنمائی کے لیے ایک کارآمد طریقہ کار پیش کرتے ہیں۔

حالانکہ اچھے خاصے فنڈز اور پیشہ ورانہ مشاورت کے ساتھ ان پلانز کو تیار کیا گیا لیکن ان کے بارے میں کبھی باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ اس بات میں تو کئی شک نہیں کہ ان پلانز کو دھیان میں لانے سے میگا ریئل اسٹیٹ منصوبوں کے لیے من موجی انداز میں زمین کی تقسیم اور مہنگے من چاہے ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی۔ جب ایک ایسی انتظامیہ ہو جو اس قسم کی قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر نظر رکھ نہ پاتی ہو تو پھر شہر بے ہنگم انداز میں بڑھتا ہی جاتا ہے۔

سپریم کورٹ متعلقہ حکام کو پلاننگ عمل دوبارہ سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی ہدایت کرنے اور اسے قانونی تحفظ کی فراہمی میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔ پلان میں پالیسی اور منصوبوں پر عمل درآمد کے حوالے سے وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتوں کے کردار کو لازمی طور پر واضح کیا جائے، جبکہ عمل درآمد کے مرحلے کو مؤثر بنانے کی خاطر حکومت کے صفِ بالا میں شامل حکام اپنے موجودہ اختیارات رضاکارانہ طور پر پلاننگ ایجنسی کے سپرد کرے۔

یہ مضمون 16 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ڈاکٹر نعمان احمد

لکھاری کراچی میں مقیم ایک مدرس اور محقق ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024