واٹس ایپ پر اسرائیلی کمپنی کے ذریعے حملے کی تصدیق
سان فرانسسکو: پیغام رسانی کی ایپلیکیشن واٹس ایپ میں سیکیورٹی مداخلت کی نشاندہی ہوئی ہے۔
واٹس ایپ انتظامیہ کے مطابق اس مداخلت میں ایک ملک کی حکومت نے نجی کمپنی کی تیار کردہ نگرانی کی ٹیکنالوجی کے ذریعے ممکنہ طور پر انسانی حقوق کے رضاکاروں کو نشانہ بنایا۔
اس ضمن میں امریکی اخبار فنانشل ٹائمز نے سب سے پہلے واٹس ایپ کی کمزوری کے بارے میں رپورٹ کیا جس سے حملہ آور فون کال کے ذریعے اسپائی ویئر (جاسوسی کا سافٹ ویئر) داخل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
امریکی اخبار کا کہنا تھا کہ یہ اسپائی ویئر اسرائیل کی سائبر سرویلینس کمپنی (این ایس او) نے تیار کیا تھا جو موبائل فونز کی نگرانی کے آلات بنانے کے لیے مشہور ہے اور اس نے اینڈرائیڈ اور آئی فون دونوں کو ہی متاثر کیا۔
یہ بھی پڑھیں: واٹس ایپ میں بڑی سیکیورٹی خامی کا انکشاف
اس بارے میں این ایس او کا کہنا تھا کہ اس کی ٹیکنالوجی کے لائسنس میں حکومتی اداروں کو ’جرائم اور دیشت گردی کے خاتمے کے مقصد کے لیے‘ اختیار حاصل ہوتا ہے‘ اور کمپنی خود اس نظام کو آپریٹ نہیں کرتی۔
کمپنی کا مزید کہنا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو ’ہم کسی بھی غلط استعمال کے معتبر الزامات کی تحقیقات کر کے کارروائی کریں گے جس میں ہم نظام کو بند بھی کرسکتے ہیں‘۔
واٹس ایپ جو فیس بک کمپنی کا ایک حصہ ہے، کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں آگاہ کیا گیا کہ کمپنی نے امریکی محکمہ انصاف سے تحقیقات میں مدد کرنے کے لیے درخواست کی ہے، اور تمام واٹس ایپ صارفین پر زور دیا ہے کہ ایپلیکیشن کا تازہ ورژن ڈاؤن لوڈ کریں تا کہ یہ سیکورٹی مداخلت کو دور کیا جاسکے۔
مزید پڑھیں: واٹس ایپ پیغامات کی ترسیل کے لیے غیر محفوظ؟
کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کی چھان بین کررہی ہے لیکن اسے یقین ہے کہ ’جدید سائبر ٹیکنالوجی کے ذریعے صرف کچھ صارفین کو نشانہ بنایا گیا‘۔
تاہم کمپنی اور ایک ریسرچ گروپ سیٹیزن لیب نے احتیاطی طور پر تمام صارفین کو اپنا واٹس ایپ اپ ڈیٹ کرنے کا مشورہ دیا ہے، دوسری جانب کمپنی نے یہ نہیں بتایا کہ اس سے کتنے صارفین متاثر ہوئے ہیں۔
واٹس ایپ ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ بہت منظم طریقے سے کیا گیا جس میں اس بات کے تمام اشارے موجود ہیں کہ ’یہ نگرانی ایک حکومت نے ایک نجی کمپنی کے ذریعے کی‘۔
انسانی حقوق کے رضاکار نشانے پر
واٹس ایپ کا کہنا ہے کہ وہ اس قسم کی نگرانی کی ٹیکنالوجی کا ’غلط استعمال کرنے پر سخت تشویش کا شکار ہیں‘ اور انہیں یقین ہے کہ اس میں انسانی حقوق کے رضاکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔
اس بارے میں اک سینئر لیکچرر اسکاٹی اسٹورے کا کہنا تھا کہ اس حرکت سے زیادہ تر واٹس ایپ صارفین متاثر نہیں ہوئے کیوں کہ یہ حکومتوں کی جانب سے مخصوص افراد جن میں زیادہ تر انسانی حقوق کے رضاکار شامل ہیں، کو نشانہ بنانے کی کوشش لگتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک عام صارف کے لیے پریشانی کی بات نہیں، واٹس ایپ نے اس کمزوری کا فوری پتا چلا کر اسے درست بھی کردیا یہ کسی کی ذاتی معلومات یا نجی پیغامات حاصل کرنے کی کوشش نہیں تھی۔