بک ریویو: گل مینہ
موضوعاتی اور تکنیکی اعتبار سے ’گل مینہ‘ ناول کے نئے امکانات کی دریافت میں ایک اہم ناول ہے۔
گزشتہ 4 دہائیوں سے پاکستان کے شمال مغربی سرحدی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں جو واقعات رونما ہوئے، جو شورشیں برپا ہوئیں، لوگوں کو جس بڑے پیمانے پر خود کش دھماکوں اور بارود کا سامنا کرنا پڑا، اس نے علاقے کے لوگوں کی زندگیوں، ان کے رہن سہن اور کلچر کی بنیادیں ہلا دیں۔
بہت سے لوگوں کو نقل مکانی اور ہجرت کے مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ سب اذیت ناک تھا، کیونکہ اپنے بنے بنائے گھروں سے نکل کر خیموں میں رہنا پڑا اور اچھے کاروبار کی تباہی کے بعد روزگار کی تلاش جیسے کام بھی کرنے پڑے۔
گل مینہ میں اس انتہائی اہم موضوع کو اس کی جزئیات کے ساتھ تحریر میں لایا گیا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں جس آگ اور خون کے سلسلے کا راج رہا ہے اور اس کے اثرات نے جس بے رحمی کے ساتھ لوگوں کی زندگیاں تباہ کی ہیں، یہ ناول اسی فضا، اس کی سفاکی اور بے حسی کی مختلف پرتیں کھولتا ہے۔ تاریخ، حال، وقت اور مقام کے بدلتے موسموں میں بھی اس سفاکی کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔
اگر ناولوں کے موضوعات ہمارے ملک کی کہانی کو کسی حد تک آشکار کرتے ہیں، تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو ناول ’آگ کا دریا' اور 'اداس نسلیں' سے ہوتا ہوا ایک ایسی فضا میں آن پہنچا ہے جہاں ہواوٴں میں لہو کی بُو رچ بس گئی ہے اور یہی ہماری کہانی ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے چلی آرہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کہانی کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتی ہے، لکھاری بس اسے دریافت کرتا ہے۔ یہ کہانی بھی یہیں ہر سو موجود تھی اور لکھنے والے نے اسے دریافت کرلیا۔
ہم بہت سی متوازی زندگیوں میں جی رہے ہوتے ہیں اور صرف اسی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں جس کی تفہیم ہمارے لیے سہل ہوتی ہے۔ مثلاً ہر دوسرے اشارے پر ہم بھیک مانگتے ہوئے بچوں کو دیکھتے ہیں اور کچھ عرصے بعد ہم اس سارے منظر کے اس قدر عادی ہوچکے ہوتے ہیں کہ یہ پورا ماحول ہمارے لیے کسی تجسس یا دلچسپی کا باعث نہیں رہتا۔
اسی طرح خودکش بمبار بچے ایک عرصے تک ہماری گلیوں میں شعلے اگلتے رہے اور ہم اپنے مخصوص بیانیے کے ساتھ ان کا ذکر ایسے کرتے رہے جیسے یہ کسی اور دنیا کا حصہ ہوں۔ واقعی یہ کسی اور دنیا کا ہی حصہ ہیں اور اگر ایسے کردار اور موضوعات کسی ناول کا حصہ بنیں، تو یہ کوئی آسان انتخاب نہیں ہے۔
ناول نہ ہی تاریخ ہے، نہ ہی سماجیات اور نہ ہی سائنس، بلکہ یہ سب اس مشاہدے اور تصور سازی کے لیے مواد فراہم کرتے ہیں جو کسی خاص ماحول میں انسانی وجود کے مخفی گوشوں کو آشکار کرتا ہے۔ یہاں تاریخ خود ایک کردار بن سکتی ہے۔ ایسے تمام مواد کے ماخذ کھنگالنا اور انہیں انسانی قالب میں یوں ڈھالنا کہ وہ خود ایک آزادانہ وجود رکھنے لگیں، ایک کٹھن مرحلہ ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی اور خود کش بمباروں کا ذکر کچھ دوسرے ناولوں میں بھی جزوی طور پر کیا گیا ہے، مگر اس ناول کی خصوصیت یہ ہے جیسے پوری صورتحال کو اس کے بلیک ہول میں بیٹھ کر سنایا گیا ہو۔
اس میں بہت سے ایسے موضوعات ہیں، ایسے معاملات ہیں جن پر یہاں بہت کھل کر بات نہیں ہوسکتی لیکن ان کو بھی اس کہانی کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس میں عقیدے کے مسائل ہیں، یعنی کس طرح لوگوں کے عقیدے کو استعمال کیا جاتا رہا ہے اور کس طرح ایک وسیع پیمانے پر تباہی لانے کے لیے اس کو برتا گیا ہے اور قریب اور دُور کی جو قوتیں اس میں ملوث رہی ہیں، ناول میں اس جانب بھی بہت محتاط اشارے کیے گئے ہیں۔
ناول میں شمال مغربی سرحد اور اس سے ملحقہ افغانستان میں بسنے والوں کی زندگی کو اس کی جزئیات سمیت بیان کیا گیا ہے اور صدیوں سے چلی آرہی روایات اور قوت کے مختلف مراکز نے یہاں کے بسنے والوں کی نفسیات اور معاشرتی بنت پر جو اثر ڈالا، اس کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
ایک پیچیدہ صورتحال کو بیان کرنے کے لیے کہانی میں بھی ایک منفرد تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔
ناول میں کہانی کے 4 مرکزی دھارے ہیں۔ گزشتہ کچھ دہائیوں سے بپا پاکستان میں مسلح شورش، 20ویں صدی کے آغاز میں انگریز اور مقامی لوگوں کے باہمی پیچیدہ تعلقات، احمد شاہ ابدالی کی مہمات اور حسن بن صباح کی فرضی جنت اور خود کش حملوں کی روایت کے تال میل سے کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کے انجام تک لایا گیا ہے۔
ناول کی پوری فضا اداس اور خون آلود ہے اور اس کو ایک ناولیاتی پیرائے میں ایک رواقی انداز میں بیان کرنا، اس پوری فضا کو تشکیل دینا اور پھر پورے ناول میں اس کو برقرار رکھنا ایک مشکل کام تھا، جسے نہایت عمدگی سے نبھایا گیا ہے۔
ناول میں واقعاتی اور تاریخ کی تفصیلات کو ایک متوازن ادبی پرقائے میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ کسی تاریخ کا, کسی نفسیات کا یا کسی عمرانیات کا بیان نہیں ہے بلکہ ایک کہانی ہے جس میں کردار اپنے اپنے انداز سے فرد کے ممکنات کو آشکار کرتے ہیں اور ان کے تانے بانے سے ایسی کہانی ترتیب دیتے ہیں، جو یہ تقاضہ کرتی ہے کہ انہیں سمجھا جائے، ان پر حجت نہ لگائی جائے۔
اس کے ابواب طویل نہیں ہیں اور کہانی کے مختلف دھارے ان ابواب میں بغیر کسی رکاوٹ کے تیز رفتاری سے رواں دواں رہتے ہیں۔
ناول کا سب سے متاثر کن سین اس کا وہ باب ہے جہاں خود کش بمباروں کے تن سے جدا سر ایک کمرے میں مرتبانوں میں رکھے گئے ہیں اور یہاں گل مینہ اپنے بیٹے کا مردہ سر دیکھتی ہے جس کا دھڑ کمر کے گرد باندھی ہوئی جیکٹ کے ساتھ اڑ چکا تھا۔ یہ سین لکھنا بھی بہت مشکل ہے، اور شاید پڑھنا بھی، مگر متوازن انداز میں، جذبات میں کھوئے بغیر، کمال مہارت سے لکھے گئے اس باب میں ایک ایسی حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے، جس میں جیتے جاگتے لوگ، نوجوان بچے گرفتار ہوگئے ہیں جہاں ان کے مردہ سر شیشوں کے مرتبانوں میں بند ہوگئے ہیں اور زندگی سے وابستہ ان کے دھڑ کا کوئی وجود کہیں بھی نظر نہیں آتا۔
ناول کا نام: گلمینہ
مصنف: زیف سید
صفحات: 400
اشاعت: جنوری 2019
ناشر: رمیل ہاؤس آف پبلیکیشنز
قیمت: 700 روپے