قومی اسمبلی: فاٹا نشستوں میں اضافے کیلئے 26 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش
اسلام آباد: قومی اسمبلی میں فاٹا کی قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے سے متعلق 26 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کردیا گیا، جس پر اراکین اسمبلی کے درمیان بحث ہوئی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی قیادت میں ہوا، جہاں فاٹا کی نشستوں میں اضافے سے متعلق بل پر بحث کی گئی جبکہ ایک موقع پر حکومتی اراکین کی جانب سے شور شرابا بھی کیا گیا۔
قبائلی علاقوں سے منتخب ہونے والے آزاد امیدوار محسن داوڑ نے آئینی ترمیمی بل 2019 ایوان میں زیر غور لانے کی تحریک پیش کی، جس پر ایوان نے تحریک کی منظوری دی اور بل پر بحث کا آغاز ہوا۔
واضح رہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہوجائے گا۔
ایوان طے کرے ہم کسی سپرپاور کے آلہ کار نہیں بنیں گے، خواجہ آصف
بحث کا آغاز مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کیا، ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 4 دہائیوں سے خطہ دہشت گردی، بدامنی کی آماجگاہ بنا ہوا تھا، اس میں یہاں بسنے والوں کا کوئی قصور نہیں تھا، ہم نے 80 کی دہائی میں فیصلہ کیا کہ ہمیں ایک سپر پاور کی پراکسی بننا ہے اور اس کے نتیجے میں ہم نے اپنے ملک میں خانہ جنگی کا سامان پیدا کیا۔
انہوں نے کہا کہ 11 ستمبر 2001 کے بعد ہم نے پھر یہی فیصلہ کیا کہ سپرپاور کی پراکسی کا حصہ بننا ہے اور جو جنگ سرحد پار لڑی جارہی تھی اسے ہم خود گھسیٹ کر اپنی دہلیز پر لے آئے اور اس کے بعد پورا پاکستان اس جنگ کی لپیٹ میں آگیا۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ 80 کی دہائی اور 11 ستمبر 2001 کے بعد کی یہ دونوں جنگیں 2 فوجی آمروں نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے لڑیں، یہ پاکستان کے عوام کی جنگیں نہیں تھیں، اقتدار کی اپنی ذاتی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دہشت گردی کی آگ میں دھکیل دیا گیا۔
سابق وزیر کا کہنا تھا کہ 70 سال میں جو ہوا، اس کا نشانہ کراچی، فاٹا اور سوات بنے، ہمارے خوبصورت شہر دہشت گردوں کی آماج گاہ بن گئے، منشیات اور کلاشنکوف کے کلچر سے آج تک جان نہیں چھڑا سکے۔
اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی آزادی بیچی اور ایک سپرپاور کی غلامی قبول کرکے ایک فرد واحد نے اپنے اقتدار کو دوام بخشا، کوئی قومی مفاد اس سے وابستہ نہیں تھا، افغان جنگ میں جو آپ نے کردار ادا کیا وہ ایک ’نام نہاد‘ جہاد تھا، سوویت یونین سے پاکستان کی کوئی دشمنی نہیں تھی، ہمیں صرف شوق تھا کہ اقتدار کو طول دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ 11 ستمبر کے بعد افغانستان کو نشانہ بنایا گیا اور آج 18 سال ہوگئے ہیں، امریکا اور اس کے اتحادیوں کے پاس دور دور تک فتح نہیں ہیں، وہ شکست کھا چکے ہیں اور واپسی کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں، ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے ملک کے تمام وسائل فاٹا کی بحالی اور دردناک تاریخ کو مٹانے کے لیے استعمال کرنے چاہئیں۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ فاٹا کے لوگوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا، انہیں اس کا معاوضہ دیا جائے، پورا ملک انہیں معاوضہ دے اور اس خطے میں ایک عارضی بندوبست کیا جائے، یہ فاٹا کے عوام کا پورے پاکستان پر قرض ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب 2018 میں مردم شماری ہوئی تو فاٹا کی پوری آبادی وہاں نہیں تھی، وہ پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں، لہٰذا جب تک وہاں امن بحال نہیں ہوجاتا اس خطے کو ایک ایسے رویے کی ضرورت ہے جو ان کے دکھوں کا مداوا کرسکے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے اقتدار کے مفادات کے لیے اپنی آزادی کا سودا کرلیتے ہیں، اپنے ملک کی سرزمین کا سودا کرلیتے ہیں، اپنے وطن کے لوگوں پر پہاڑ توڑ پڑتے ہیں، ان علاقوں میں بارات، جنازوں پر ڈرون حملے ہوتے رہے، سرحد پار سے مداخلت ہوتی رہی، جس سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ہضیمت اٹھانی پڑی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ آج یہ اعوان ایک نئی تاریخ رقم کر رہا ہے، ایک پرائیویٹ ممبر کے بل کے اوپر آئین کی ایسی ترمیم کی جارہی ہے جو وقت اور تاریخ کا تقاضہ ہے، یہ خوش آئند بات ہے کہ ایوان فاٹا کی آواز پر لبیک کہہ رہا ہے۔
سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ریاست ماں ہوتی ہے، وہ نشتر نہیں چلاتی بلکہ زخموں پر مرہم رکھتی ہے، یہ رعایا ریاست کے بچے ہیں، یہ ہماری مشترکہ جنگ ہے، آج فاٹا کو یہ درجہ دے کر ہم کوئی احسان نہیں کر رہے یہ ان کا حق ہے، یہ ہمارے اوپر قرض ہے جو ہم ادا کر رہے ہیں، یہ ایوان بل پاس کرکے وہ قرض اتارنے کی کوشش کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا کے تمام اراکین چاہے وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اس کا ان پر اتفاق ہے، کاش کہ یہ ایوان اس طرح کے قومی معاملات پر دیگر موقع پر بھی اتفاق رائے پیدا کرسکیں۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ایوان اس بل کے ذریعے فاٹا کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بھائیوں کو پیغام دے رہا ہے کہ پاکستان کے عوام آپ کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایوان ان قربانیوں کو یاد کرے جو ہماری افواج اور فاٹا کے عوام نے دی، اس جنگ کو لڑتے ہوئے ہمارے جوان شہید ہوئے، ہماری افواج نے دنیا میں اپنا نام منوایا، دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی فوج نے قابل تحسین کردار ادا کیا۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یہ ایوان طے کرے کہ ہم کسی سپرپاور کے آلہ کار نہیں بنیں گے، اپنی خودمختاری، سالمیت کا تقدس برقرار رکھیں گے اور اسے پامال نہیں ہونے دیں گے۔
فاٹا کے لوگوں نے پاکستان کی خاطر سرحدوں کی حفاظت کی، پرویز خٹک
اس موقع پر وزیر دفاع پرویز خٹک نے اظہار خیال کیا کہ جن علاقوں کو علاقہ غیر کہتے تھے آج ہم نے انہیں اپنا لیا ہے، گزشتہ اسمبلی نے جو قانون سازی کے بعد فاٹا صوبے میں ضم ہوگیا ہے، بچپن میں سنتے تھے کہ یہ علاقہ غیر ہے یہ ہمارے لوگ نہیں لیکن کاش 70 برس پہلے یہ سمجھ آجاتی کہ ہم ایک ہیں، ہمارے رشتے ایک ہیں۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ 70 سال کی تاریخ کو دیکھیں تو یہاں کے عوام نے ظلم اور ناانصافی برداشت کی یہ جنگی علاقہ بنانا لیکن ان سب کے باوجود انہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا اس پر میں ان پر فخر کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا میں ایف سی آر کے قانون کے تحت انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا تھا، تاہم شکر ہے کہ یہ اب ہمارے صوبے کا حصہ بن چکے ہیں، فاٹا کے انضمام کے بعد عوام پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کرسکتے ہیں، وہ وقت آئے گا کہ یہ علاقہ ترقی کرے گا اور یہاں خوشحالی آئے گی۔
پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ فاٹا کے لوگوں نے پاکستان کی خاطر ہماری سرحدوں کی حفاظت کی، پاکستان کی خاطر انہوں نے تکلیفیں برداشت کیں اور ان کا مستقبل بہتر ہونے جارہا ہے، ہمیں ملک کی خاطر اکٹھے ہو کر چلنا ہے، جہاں قومی مفاد کا معاملہ آئے تو زیادہ بحث نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ سب کا ملک ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے جو حالات ہیں اس کےلیے سب کو اکٹھے ہوکر کام کرنا ہوگا، فاٹا کے انضمام کا معاملہ 3 سے 4 مرتبہ مشترکہ مفادات کونسل میں آیا، جب یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے تو اس معاملے کو ٹال دیا گیا، جس کے بعد شاہد خاقان عباسی کے دور میں یہ فیصلہ ہوا اور اس کے بعد بل اسمبلی نے پاس کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ فاٹا میں بنیادی سہولیات اور روزگار کا بندوبست کیا جائے، اس سلسلے میں سالانہ 100 ارب روپے فاٹا کے علاقوں میں خرچ کیے جائیں گے اور 10 سال تک ایک ہزار ارب روپے خرچ ہونگے، ہم فاٹا کے لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ پورا پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے۔
بھارت میں قید پاکستانی ماہی گیروں کا معاملہ
قومی اسمبلی اجلاس کے دوران بھارت میں قید کراچی اور ٹھٹھہ سے تعلق رکھنے والے 90 ماہی گیروں کی رہائی سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پر بھی اراکین نے اظہار خیال کیا۔
رکن اسمبلی عبدالقادر پٹیل کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ماہی گیر کسٹم کیلئرنس کے بعد سمندر میں جاتا ہے، ابھی نندن کی رہائی کے بعد بھی ہمارے ماہی گیر قید کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ دن پہلے بھارتی جیل میں قید ایک ماہی گیر کی لاش وطن واپس آئی، میں اس ماہی گیر کے جنازے میں گیا تو اس کی آنکھیں نکالی ہوئی تھیں، کیا ہم نے صرف یکطرفہ خیر سگالی دکھانی ہے۔
ساتھ ہی توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرنے والے فہیم خان نے کہا کہ ہم زندہ ماہی گیر بھیجتے ہیں لیکن جواب میں بھارت سے لاشیں ملتی ہیں، ماہی گیروں کی شناخت کیسے ہوتی ہے، واہگہ بارڈر سے لانا بھی مشکل ہوتا ہے۔
اس پر پارلیمانی سیکریٹری خارجہ امور عندلیب عباس نے جواب دیا کہ ہم نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر بھارت کے 300 کے قریب ماہی گیر رہا کیے جبکہ کل 510 ماہی گیر ہم نے گرفتار کیے تھے۔
جواب میں انہوں نے بتایا کہ بھارت میں ہمارے 375 عام شہری اور 210 ماہی گیر قید ہیں جن کی رہائی کے لیے کوشش کررہے ہیں، بین الاقوامی دباؤ بھی بھارت پر بڑھ رہا ہے، 14 مئی کو 4 پاکستانی ماہی گیر رہا ہوجائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 10 برس میں ماہی گیروں کی رہائی سے متعلق وہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے جو ضروری تھے۔
اس پر پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی قادر پٹیل نے اعتراض اٹھایا کہ پارلیمانی سیکرٹری کا جواب اطمینان بخش نہیں ہے، ہم جذبہ خیر سگالی کی بات کررہے ہیں وہاں ہمارے قیدیوں پر تشدد کیا جارہا ہے۔
عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ کیماڑی کے سہیل نامی ماہی گیر کی تشدد زدہ لاش واہگہ بارڈر پر 17 دن پڑی رہی اور اس کی آنکھیں تک نکلی ہوئی تھیں جبکہ پاکستانی ماہی گیر کو شناختی کارڈ، کسٹم کلیئرنس، فشریز کارڈ اور این او سی چیک کرنے کے بعد بھجوایا جاتا ہے۔
بعد ازاں قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی قید میں پاکستانی ماہی گیروں سے متعلق بات کی اور کہا کہ پاکستان وقتاً فوقتاً ماہی گیروں کا معاملے پر بھارت سے بات کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ جو ماہی گیر یا جو بھی غلطی سے سرحد پار کرتے ہیں انہیں واپس لائیں ، دفتر خارجہ اور ہائی کمیشن نے اس معاملہ کو مسلسل اٹھایا ہے،ہم جس حد تک قانونی تحفظ دے سکتے ہیں وہ دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شناخت کا عمل بہرحال کرنا پڑتا ہے، البتہ زون سے تجاوز کرنے پر گرفتار کیا جاتا ہے، یہ انسانی مسئلہ ہے لوگ روزگار کی خاطر جاتے ہیں ایسا دونوں طرف سے ہوجاتا ہے۔
شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ بھارت اس وقت معاملات خراب کرنا چاہ رہا ہے، سب نے دیکھا کہ پلوامہ سے پاکستان کا کوئی تانا بانا نہیں تھا لیکن پھر بھی بھارت نے ایسا کرنے کی کوشش کی، پاکستان کی حکمت عملی کشیدگی کم کرنے کی رہی ہے اور ہم نے جذبہ خیر سگالی کے تحت بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کیا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے اپریل میں 4 مرحلوں میں 360 بھارت ماہی گیروں کو جذبہ خیرسگالی کے تحت رہا کیا تاکہ بھارت پر دباؤ ڈالا جاسکے کہ پاکستان ایسا کر رہا ہے تو بھارت کو بھی کرنا چاہیے۔
وزیر خارجہ نے اپوزیشن رکن کو مخاطب کرتے ہوئے ماہی گیروں کے معاملے ہر کہا کہ دفتر خارجہ اور ہائی کمیشن اس معاملے پر مکمل تعاون کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماہی گیروں کے مسائل کے حل کے لیے اپوزیشن کی تجاویز کا خیر مقدم کریں گے۔