شمالی کوریا کا ایک ہفتے میں دوسرا میزائل تجربہ
شمالی کوریا نے رواں ہفتے دوسری مرتبہ کم فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنانے والے 2 میزائل کا تجربہ کر لیا۔
میزائل تجربہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب امریکا کے خصوصی نمائندہ برائے شمالی کوریا اسٹیفن بیگن شمالی کوریا میں وزیر خارجہ کانگ کیونگ وا اور اپنے ہم منصب سمیت جوہری سفیر لی ڈو ہون سے ملاقات کے لیے پیانگ یانگ میں موجود ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کے صدر کا کہنا تھا یہ میزائل تجربہ شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان معاہدے کی ناکامی کے احتجاج کے طور پر سامنے آیا۔
جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’2 میزائلوں کو شمال مغربی علاقے کوسونگ سے مشرق کی جانب فائر کیا گیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میزائلوں نے 420 کلومیٹر اور 270 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور وہ 50 کلومیٹر تک ہوا میں گئے جس کے بعد وہ سمندر میں گرے‘۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی کوریا کامختصر فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل کا تجربہ
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ان میزائلوں کی اقسام کے حوالے سے بات کرنا قبل از وقت ہوگا۔
کوریا ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورم کے سینیئر محقق یانگ یو کے کا کہنا تھا کہ ’ہم نہیں جانتے کہ یہ کونسے میزائل تھے اور انہوں نے کتنی مسافت طے کی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شمالی کوریا اپنی پرانی جنگ کی حکمت عملی پر پہلے ہی لوٹ گیا تھا، مجھے لگتا ہے کہ وہ یہ کم فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل کا تجربہ کرتا رہے گا، یہ ایسا ہے جس پر امریکا براہ راست رد عمل نہیں دے سکتا‘۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن کے درمیان ملاقاتیں ہوئی تھیں جس کے نتیجے میں شمالی کوریا نے میزائل تجربوں کو موخر کرتے ہوئے امریکی تحفظات دور کرنے کا اشارہ دیا تھا۔
رواں برس فروری میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ویت نام میں ملاقات ہوئی تھی تاہم شمالی کوریا کو جوہری اسلحے کے حوالے سے پابندیوں میں نرمی میں توسیع دینے کے معاملے پر اختلافات کے باعث غیر معمولی انداز میں مذاکرات ختم کر دیئے گئے تھے۔
شمالی کوریا نے مطالبہ کیا تھا کہ پابندیوں کے حوالے سے فوری نرمی کا اعلان کیا جائے لیکن اس کے جواب میں شمالی کوریا کے اقدامات پر دونوں فریقین کا اختلاف سامنے آیا تھا۔
شمالی کوریا نے میزائل کا تجربہ جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ کینگ کیونگ ووہا کی جانب سے پابندیوں میں نرمی کے لیے اسلحے کی تخفیف کے واضح اور شفاف ثبوت دکھانے کا مطالبے کے خلاف کیا تھا۔
خیال رہے کہ شمالی کوریا کے نائب وزیرخارجہ نے امریکا کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے شمالی کوریا کے معاشی پابندیوں کو ختم نہیں کیا تو غیر متوقع نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مزید پڑھیں: شمالی کوریا پر عائد تمام پابندیاں نہیں ہٹائی جاسکتیں، ٹرمپ
شمالی کوریا کے ایک تجزیہ کار کا ان تجربوں کے حوالے سے کہنا تھا کہ ‘تازہ تجربوں سے کم جونگ ان کے وعدوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وعدوں میں وسیع پیمانے پر بلیسٹک میزائل کے تجربے پر خودساختہ پابندی لگائی گئی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘تاریخی طور پر دیکھا جائے تو شمالی کوریا نے امریکا سے مذاکرات کے دوران کسی قسم کا کوئی تجربہ نہیں کیا’۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں برس ناکام رہنے والی ملاقات کی ذمہ داری شمالی کوریا پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'بعض اوقات آپ کو چلنا پڑتا ہے، ایک تجویز کردہ معاہدے پر دستخط ہونے تھے جس میں جلد بازی کے بجائے میں درست معاہدہ کرنا بہتر سمجھتا ہوں'۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’ہم کچھ خاص کرنے کی پوزیشن میں ہیں‘۔
دوسری جانب پیانگ یانگ اپنے جوہری پروگرام کو خلیج نما کوریا کی سیکیورٹی کی مضبوط ترین ضمانت کے طور پر دیکھتا ہے۔
اس حوالے سے کم جونگ اُن نے کہا تھا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے لیے تیار ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ ’اگر میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تو میں اس وقت یہاں نہیں ہوتا‘۔