بک ریویو: اے تحیر عشق (نہ جنوں رہا نہ پری رہی)
انگریزی افسانوں پر مشتمل اپنی گزشتہ کتاب ٹیلز فرام بریہرا کے بعد ڈاکٹر رفیع مصطفیٰ کی اب ایک اور کتاب اے تحیر عشق (نہ جنوں رہا، نہ پری رہی) شائع ہوچکی ہے۔ مرکزی کردار کے بچپن سے جوانی تک کی کہانی پر مبنی اس ناول کی ابتدا ایک ایسے خاندان کی کہانی کے ساتھ ہوتی ہے جو شمالی ہندوستان کے ایک قصبے کے ریت و رواج اور اقدار سے بھرپور ثقافت میں گہرائی سے پیوستہ ہے۔
1930ء اور 1940ء کی دہائی کے پس منظر میں لکھے گئے ناول کے مرکزی کردار بلال ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے کا حصہ ہے جو ایک ایسے خاندان کی تین نسلوں کے کرداروں کے درمیان تعلقات کو پیش کرتا ہے جو بدقسمتی اور خوش قسمتی کے پنڈولم میں جھولتا ہے۔
ناول میں استعمال ہونے والی زبان اور اظہار کے طریقے میں اس قدر ربط و روانی اور گرفت ملتی ہے کہ میں صفحہ پر صفحہ پلٹتا ہی چلا گیا، اور مجال ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی دلچسپی میں کمی ہوئی ہو۔
تقسیم ہند کی اتھل پتھل اور افراتفری کے باعث اچانک اس خاندان کا صدیوں پرانی بین المذہبی ہم آہنگی سے بھرپور معاشرہ چکنا چور ہوجاتا ہے تاہم دنیا کے جس کونے میں جنگ کے صدمے یا قدرتی آفت نے ایک عرصے سے قائم سماجی اور معاشی ڈھانچے کو تباہ کیا ہوگا وہاں جو پس منظر جنم لیتا ہے ٹھیک وہی پس منظر اس ناول میں بھی مل جاتا ہے۔ یہی بات اس ناول کو عالمی مقبولیت فراہم کرتی ہے۔
ایک اجنبی نئے ملک میں عدم سے ایک نئی زندگی کی تعمیر میں جو حالات و واقعات رونما ہوتے ہیں اور بے گھری میں بیخ و بن سے اکھاڑ دیے گئے خاندان کی درد بھری تگ و دو اور نئی زندگی کی طرف اٹھتے ننھے قدموں کا احوال سیاسی و جذباتی قسم کے گسے پٹے لفظوں سے پاک رکھتے ہوئے خالص اردو میں بڑی ہی دلکشی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یعنی ظلم، سفاکی، بے ایمانی، بدقسمتی، خودغرضی یا مہاجر جیسے الفاظ بمشکل ہی تحریر میں پڑھنے کو ملتے ہیں، دوسری طرف کہانی کے تمام واقعات یہ سب کچھ بڑے واضح انداز میں نظر آ رہا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ناول میں اس مقصد کے لیے کسی دوسری زبان کا سہارا بھی لیا گیا، البتہ الگ زبان بولنے والے کرداروں کو پیش کرتے وقت ہی کسی دوسری زبان کے الفاظ استعمال کیے گئے۔
بلال تیسری جماعت کا طالب علم ہوتا ہے کہ جب اس کی دنیا میں آگ بھڑک اٹھتی ہے اور سب کچھ ہمیشہ کے لیے تباہ ہوجاتا ہے۔ بقائے وجود کی جنگ میں مصروف خاندان کا یہ فرد اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری کرتا ہے اور نئے دوستوں سے ملتا ہے، ساتھ ہی ساتھ نومولود ملک میں دیگر زبانیں برداریوں کے ساتھ تعلقات بناتا ہے۔
اس کے پسندیدہ بڑے اور استاد ماموں ہیں۔ ماموں میں ویسے تو ہر وہ خوبی ہے جو ہر لڑکی اپنے شوہر میں دیکھنا چاہتی ہے لیکن وہ شادی کے ساتھ آنے والی ذمہ داریوں کے بوجھ سے بچنے کے لیے شادی سے انکاری رہتے ہیں۔ تاہم آگے چل کر وہ ایک مقامی بیواہ سے شادی کرلیتے ہیں، وہ خاتون ایک بالکل مختلف پس منظر سے تعلق رکھتی ہے۔ ماموں کا اب ایک سوتیلا بیٹا بھی ہے جو بلال کی ہی عمر کا ہے، اور ان کی پہلے سے اچھی دوستی ہوتی ہے۔ ماموں کی ایک سوتیلی بیٹی بھی ہے جس کا نام روبینہ ہے، جس کے لیے بلال ’ممانی زادی‘ کا لفظ دریافت کرتا ہے۔ روبینہ اور بلال کی منگنی ہونے ہی والی ہے، لیکن پھر تنازعات جنم لیتے ہیں جو ان دنوں کے درمیان طے شدہ منگنی کے علاوہ بہت کچھ تہ و بالا کردیتے ہیں۔
بلال کے گھر کے سامنے میمونہ نامی ایک دوسری لڑکی رہتی ہے، میمونہ اور ہمارا مرکزی کردار تعلیمی کامیابیوں اور ذاتی مسائل کے معاملے پر آپس میں کافی مثابقت رکھتے ہیں۔ بطور یونیورسٹی طالب علم گزرتے وقت کے ساتھ دونوں میں دشمنی، پھر پسندیدگی اور احترام جنم لیتا ہے، اور دونوں مستقبل ساتھ گزارنے کے خواب بنتے ہیں۔ تاہم اس سے پہلے کہ ان کا تعلق پرواز بھرتا بلال کو اعلیٰ تعلیم کے لیے طویل عرصے پر محیط غیر ملکی اسکالرشپ مل جاتی ہے۔
کئی سالوں بعد بلال کے گھر لوٹنے پر کہانی اور عنوان کے درمیان تعلق آشکار ہوجاتا ہے۔ ناول کا عنوان ’اے تحیرِ عشق‘ دراصل 18 ویں صدی کے ایک عظیم صوفی شاعر سراج اورنگ آبادی کی غزل سے لیا گیا ہے، جو کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ
خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
ناول کی کہانی میں گھماؤدار یکساں حالت میں بہتی نہر جیسا تلسل نظر آتا ہے جس میں کہیں نفیس موڑ آتے ہیں اور کہیں خلل آتا ہے۔ کہانی میں کوانٹم فزکس، فکلیات اور نگ بینگ تھیوری بھی تواتر کے ساتھ بنی ہوئی ہے، اس ماہرانہ آمیزش کو ناول نگار کے تعلیمی شعبے سے وابستی کا سبب کہا جاسکتا ہے۔
حیدرآباد، سندھ میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ پی ایچ ڈی کے لیے کینیڈا چلے گئے اور پھر مختلف ممالک میں متعدد یونیورسٹیوں میں پڑھایا۔ ناول کی کہانی وجودیت کی عالمی الجھنوں کی طرف مائل ہونے سے قبل ذہن میں اس دنیا اور خاص رومانیت کا تصور پیدا کرتی ہے جو حسینہ معین کے ڈراموں میں پائی جاتی ہے۔
درحقیقت اے تحیر عشق صرف اپنے حقیقی اردو طرز تحریر، جملوں کی ساخت، محاوروں اور لغت کی شوخ و چنچل خصوصیت کی وجہ سے ہی اپنے زیادہ تر ہم عصر اردو ادب میں ایک الگ مقام نہیں رکھتا بلکہ یہ سائنس میں دلچسپی رکھنے والے شخص کی بڑے ہی پختگی کے ساتھ پرسکون مزاج، مطبی (کلینیکل) طرزِ تحریر کا کمال ہے، جو اس سب کے باجود بھی قاری کے جذبات کو گہرائی سے چھو لیتی ہے۔
کرداروں کو مکالمے کے ذریعے حقیقی زندگی کے انتہائی قریب لایا گیا ہے، کتاب پڑھتے پڑھتے ہم ان کرداروں سے اتنے آشنا ہوجاتے ہیں کہ جیسے وہ سب ہماری جان پہچان والے ہوں۔ انہیں مفصل انداز میں بیان کردہ ماحول اور گرد وپیش میں بھرپور زندگی گزارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
اے تحیر عشق ایک بڑے ہی اہم دور کی منظرکشی پیش کرتا ہے اور کہانی میں اس دور سے گزرنے والے عام لوگوں کی زندگیوں کا بڑی گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے۔
کتاب کا نام: اے تحیر عشق (نہ جنوں رہا نہ پری رہی)
مصنف: رفیع مصطفیٰ
پبلشر: فضلی سنز، کراچی
آئی ایس بی این: 978-9694412429
صفحات: 286
یہ تبصرہ ڈان اخبار کے بکس اینڈ آتھرز سیکشن میں 28 اپریل 2019ء کو شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں