برطانیہ: وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو 50 ہفتے کی قید
لندن: برطانوی جج نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو 7 برس قبل عدالتی حکم عدولی کے الزام میں تقریباً ایک برس (50 ہفتے) کی قید کی سزا سنا دی۔
واضح رہے کہ جولین اسانج نے اپنی ضمانت کے دوران لندن میں موجود ایکواڈور کے سفارتخانے میں سیاسی پناہ لے لی تھی، تاکہ سویڈن منتقلی سے بچا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ: وکی لیکس کے بانی جولین اسانج سفارتخانے سے گرفتار
11 اپریل کو ایکواڈور کی حکومت کی جانب سے سیاسی پناہ واپس لینے کے بعد سفارتکار نے لندن پولیس کو سفارتخانے میں بلایا جہاں انہوں نے جولین اسانج کو حراست میں لیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق 47 سالہ آسٹریلوی جولین اسانج کے حمایتی عدالت کے باہر موجود تھے، جنہوں نے سزا دینے پر عدالت کو مخاطب کر کے ’شرم آنی چاہیے‘ کے نعرے لگائے۔
وکی لیکس کے ایڈیٹر ان چیف کریسٹن ہرفسون نے سزا کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
انہوں نے دوران پریس کانفرنس خبردار کیا کہ ’یہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جولین اسانج کی امریکا منتقلی روکنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں گے‘۔
مزید پڑھیں: 'آسانج پھیپھڑوں کی تکلیف میں مبتلا'
47 سالہ جولین اسانج نے سفارتخانے کو چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وکی لیکس کی سرگرمیوں کے لیے سوالات پر انہیں امریکا منتقل کیا جاسکتا ہے۔
گرفتاری سے متعلق برطانوی وزیر خارجہ سر ایلن ڈنکن کا کہنا تھا کہ 'اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکرات ہوئے‘۔
اس بارے میں ایکواڈور کے صدر لینن مورینو کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ کی جانب سے ایکواڈور کو ضمانت دی گئی کہ جولین اسانج کو اس ملک کے حوالے نہیں کیا جائے گا جہاں موت کی سزا ہو۔
لینن مورینو کا کہنا تھا کہ ’انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ہمارے بھرپور عزم کے تحت میں نے برطانیہ سے درخواست کی کہ اس بات کی ضمانت دی جائے کہ جولین اسانج کو ایسے ملک کے حوالے نہیں کیا جائے جہاں انہیں تشدد یا سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہو‘۔
یہ بھی پڑھیں: وکی لیکس کے بانی کےخلاف ’ریپ کیس‘ کی تحقیقات ختم کرنے کا اعلان
واضح رہے کہ نومبر 2010 میں سویڈن نے جولین اسانج کے بین الاقوامی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، اس سے قبل ان سے جنسی ہراساں اور ریپ کے الزامات پر سوالات کیے گئے تھے، تاہم انہوں نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ خفیہ امریکی دستاویزات کو شائع کرنے پر انہیں سویڈن سے امریکا کے حوالے کردیا جائے گا۔
بعد ازاں دسمبر 2010 میں جولین اسانج نے برطانوی پولیس کے سامنے سرنڈر کیا تھا لیکن وہ 10 روز کی ضمانت پر رہا ہوگئے تھے، تاہم حوالگی کی کارروائی کو چیلنج کرنے میں ناکامی کے بعد انہوں نے ضمانت کی خلاف ورزی کی تھی اور فرار ہوگئے تھے۔
جس کے بعد اگست 2012 میں ایکواڈور کی جانب سے انہیں سیاسی پناہ دی گئی تھی اور اس کے بعد سے وہ لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں مقیم تھے۔