آئی ایم ایف سے تکنیکی سطح کے مذاکرات، 6 سے 8 ارب ڈالر کا پیکج متوقع
اسلام آباد: پاکستان اور بین الاقوامی مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان آئندہ 10 روز میں مجوزہ بیل آؤٹ پیکج کی تفصیلات کے حل کے لیے تکنیکی سطح پر مذاکرات جاری ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ میں موجود ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پاکستان کے دورے پر آیا ہوا آئی ایم ایف مشن 6 مئی تک تکنیکی تفصیلات کو مکمل کرنے کے لیے اسلام آباد میں قیام کرے گا جبکہ پالیسی کی سطح پر تفہیم پر آئندہ 3 روز میں پہنچ جائیں گے۔
ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ مجوزہ بیل آؤٹ پیکج 6 سے 8 ارب ڈالر تک متوقع ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ تکنیکی سطح کے کامیاب مذاکرات کے بعد پاکستان 10 مئی تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر دستخط کردے گا، جس کے بعد یہ معاہدہ آئی ایم ایف بورڈ کو بھیجا جائے گا۔
مزید پڑھیں: ’اسد عمر کو ہٹانے کے پیچھے سیاسی وجوہات تھیں‘
واضح رہے کہ واشنگٹن میں سابق وزیر خزانہ اسد عمر اور آئی ایم ایف کے اعلیٰ حکام کے درمیان وسیع تر فریم ورک پر پہلے ہی معاملات طے پاگئے تھے اور اب وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ پاکستان آنے والے آئی ایم ایف مشن کے ساتھ تکنیکی سطح کے مذاکرات کی قیادت کر رہے ہیں۔
حکومتی محکمے مانیٹری ادارے کے حکام کے ساتھ ٹیکسز، ٹیرف، سبسڈیز اور دیگر متعلقہ معاملات کے اعداد و شمار شیئر کریں گے جبکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان مانیٹری سے متعلق تفصیلات دے گا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات کی توجہ مالی اور مالیاتی پالیسی پر مرکوز ہوگی۔
تاہم ایک اور عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ معیشت میں بہتری کے دوران آئی ایم مشن سے مذاکرات منعقد کیے جارہے ہیں اور ’اب ہم گزشتہ برس ستمبر میں فنڈ کے پیکج سے منسلک شرائط میں بڑی تبدیلی دیکھ چکے ہیں‘۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ’ہم نے شرائط کی توجہ بیرونی جانب سے مالی تبدیلی کی طرف کردی ہے‘، ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اب آئی ایم ایف کو یہ احساس ہوگیا کہ گزشتہ ساتھ ماہ سے زائد عرصے میں حکومت کی جانب سے لیے گئے اصلاحاتی اقدامات کے نتیجے میں معاشی بہتری کے اشارے ملے ہیں۔
اس کے نتیجے میں فنڈ دینے والے حکام آئندہ 3 برس میں زیادہ سے زیادہ آمدنی کے لیے اب مالی معاملات کی جانب توجہ دیں گے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں آئی ایم ایف کی جانب سے سخت شرائط کی تجاویز دی گئی تھیں جس سے ملک میں مہنگائی 19 فیصد تک بڑھ سکتی تھی، اس کے علاوہ دوسرا بڑا مطالبہ 600 بنیادی پوائنٹس میں اضافے کے ساتھ شرح سود کو 21 فیصد تک بڑھانے کا تھا۔
تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ ’اب یہ شرائط کافی حد تک تبدیل ہوچکی ہیں‘ اور اب یہ اتنی سخت نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود آئی ایم ایف کی شرائط ملک میں مہنگائی اور شرح سود کو بڑھائیں گی، تاہم یہ پہلے دی گئی تجویز کے مقابلے میں کم سطح پر ہوگا۔
حکام کا کہنا تھا کہ یہ تبدیلی اس وجہ سے آئی کیونکہ معیشت کے بیرونی پہلو کو منظم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے اقدامات اٹھائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ’اب ہم یہ دلائل دے سکتے ہیں کہ مالیاتی پہلو پر بھی اس طرح کے اقدامات سے اسی طرح کے مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے‘۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج مئی تک ملنے کا امکان
ادھر ذرائع نے مزید بتایا کہ ’ایک اور مسئلہ جو مذاکرات میں زیر بحث ہے وہ ایکسچینج ریٹ منظم کرنا ہے‘ اور فنڈ کے ساتھ ایکسچینج ریٹ کے لیے کوئی حد طے نہیں کی گئی۔
حکام کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے 3 ماہ قبل (مئی سے جولائی 2018) میں حکومت کا اوسطاً کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2 ارب 36 کروڑ ڈالر تھا، اگر یہ رجحان جاری رہنا تو یہ سال کے اختتام پر 24 ارب 40 کروڑ ڈالر پر ختم ہوسکتا تھا لیکن کزشتہ کچھ ماہ میں یہ رجحان تبدیل ہوگیا ہے۔
رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ (ستمبر سے مارچ) تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 96 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کم ہوا جبکہ جنوری سے مارچ 2019 کے دوران اس میں مزید 63 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی کمی آئی۔