'ہمسایہ ممالک افغان امن مذاکراتی عمل کی حمایت کریں'
واشنگٹن: امریکا، روس اور چین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو افغان جنگ کے خاتمے کے لیے جاری مذاکراتی عمل کی حمایت کرنی چاہیے۔
واشنگٹن سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ امریکا، روس اور چین، ماسکو میں ہونے والے اجلاس میں 18 سال سے جاری افغان جنگ کے خاتمے کے حوالے سے متفقہ رائے پر پہنچے ہیں۔
اعلامیے میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے عزم کا اظہار کیا گیا جبکہ اس میں افغان شہریوں کی خواہش کے مطابق امن مذاکرات کو آگے بڑھانے پر بھی اتفاق ہوا۔
دستاویز میں طالبان کے عہد کو بھی شامل کیا گیا جس کے مطابق طالبان، افغانستان میں داعش کے خلاف لڑیں گے جبکہ القاعدہ کے ساتھ اپنے روابط ختم کریں گے اور دیگر تنظیموں کو افغان سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
مزید پڑھیں: زلمے خلیل زاد کا افغانستان کے حوالے سے عمران خان کے بیان کا خیر مقدم
دستاویز میں طالبان کے اس عہد کی نشاندہی بھی کی گئی جس میں انہوں نے 'یقین دہانی کروائی تھی کہ ان کے زیر انتظام علاقے کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے'۔
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ 'تنیوں ممالک نے خطے میں افغان ہمسایہ ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ان کی جانب سے اتفاق کیے جانے والے امور کی حمایت کریں تاکہ افغانستان پر عالمی اتفاق رائے قائم کیا جاسکے'۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکا کے خصوصی مشیر برائے افغان امن مذاکراتی عمل زلمے خلیل زاد نے ماسکو میں روسی اور چینی ہم منصب سے ملاقات کی تھی جس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا، اس میں افغان جنگ کے خاتمے کے حوالے سے عالمی اتفاق رائے قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
مشترکہ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ 'تنیوں فریقین نے امن مذاکراتی عمل کے حصے کے طور پر افغانستان سے غیر ملکی افواج کے ذمہ دارانہ انخلا پر اتفاق کیا ہے'، اس کے علاوہ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ افغان عوام کی اُمیدوں کے مطابق افغان امن مذاکراتی عمل کے لیے تمام ضروری مدد فرایم کی جائے گی۔
یاد رہے کہ طالبان کی جانب سے افغان حکومت سے مذاکرات سے مسلسل انکار کے بعد امریکا نے افغان امن مذاکراتی عمل کے لیے روس اور چین کی حمایت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
واشنگٹن نے اس اُمید کا اظہار کیا تھا کہ تنیوں ممالک کی جانب سے جاری کیا جانے والا مشترکہ اعلامیہ طالبان کو افغان حکومت کے وفد سے 'جہاں تک ممکن ہوسکے' بات چیت کرنے پر حوصلہ فراہم کرے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے طالبان نے افغان حکومت کے 350 افراد پر مشتمل وفد سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا تھا، جن میں 50 خواتین بھی شامل تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ وفد کے اراکین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ قطر کے شہر دوحہ میں ہونے والے مذاکرات، جو شیڈول تھے، میں طالبان وفد کے اراکین کی تعداد صرف 10 تھی۔
یہ بھی پڑھیں: زلمے خلیل زاد کو رواں سال ہی افغان جنگ کے اختتام کی اُمید
طالبان وفد نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا پر بات ہوگی جبکہ امریکا فوری طور پر جنگ بندی کے اعلان اور مرحلہ وار افواج کا انخلا چاہتا ہے۔
مشترکہ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ امریکا، روس اور چین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ دوحہ میں ہونے والے انٹرا افغان مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں افغانستان حکومت کی جانب سے بین الاقوامی دہشت گردی اور انتہا پسند تنظیموں سے لڑنے کے اقدامات کی حمایت کی جائے گی۔
انہوں نے طالبان پر زور دیا کہ وہ دہشت گردوں کی بھرتیاں، ٹریننگ اور فنڈنگ کو بند کریں جبکہ نامور دہشت گردوں کو اپنی صفوں سے نکال دیں۔
یہ رپورٹ 28 اپریل 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی