’میشا شفیع نے منظم منصوبہ بندی سے ذاتی مفاد کیلئے مجھے ٹارگٹ کیا‘
گلوکار علی ظفر نے کہا ہے کہ گلوکارہ میشا شفیع نے انہیں منظم منصوبہ بندی کے تحت ذاتی مفاد کے لیے ٹارگٹ کیا۔
سیشن کورٹ لاہور میں ہتک عزت کیس کی سماعت میں پیشی کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے علی ظفر نے دعویٰ کیا کہ انہیں منظم منصوبہ بندی اور ذاتی مفاد کی خاطر سوچ سمجھ کر ہدف کا نشانہ بنایا گیا۔
گلوکار نے کہا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ انہیں کیوں ذاتی مفاد کے لیے ہدف بنایا گیا۔
علی ظفر کا سوالیہ انداز میں کہنا تھا کہ کیا انہیں اس لیے ہدف کا نشانہ بنایا گیا، کیوں کہ میشا شفیع کینیڈا منتقل ہوکر عالمی سطح پر اپنی پہنچان بناکر ملالہ یوسف زئی کی طرح بننا چاہتی تھیں؟
گلوکار کے مطابق انہیں میشا شفیع کی ایسی نیت کا علم نہیں، یہ صحافی ہی زیادہ پتہ لگا سکتے ہیں، تاہم وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں، اسی لیے عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔
علی ظفر نے بتایا کہ انہیں عدالت نے آج نہیں بلایا تھا، وہ خود پیش ہوئے ہیں، کیوں کہ کیس کو ایک سال ہوچکا ہے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے علی ظفر نے دعویٰ کیا کہ میشا شفیع کا کیس عدالت نے خارج کردیا ہے اور وہ قانون کی نظر میں بے گناہ ہیں، اب عدالت میں ان کی جانب سے میشا شفیع پر دائر کیا جانے والا کیس زیر سماعت ہے، جس میں گلوکارہ پیش نہیں ہوئیں۔
علی ظفر کے مطابق عدالت نے جنسی ہراساں سےمتعلق میشا شفیع کی درخواست بھی مسترد کردی تھی اور یہ کیس ان کی جانب سے کیے جانے والے ہرجانے کا کیس ہے، جس میں ان کے گواہان 8 بار پیش ہوچکےہیں۔
گلوکار نے میڈیا سے بات کے دوران عدالت سے درخواست کی کیس کا فیصلہ جلد سے جلد سنا کر دنیا کو سچائی سے آگاہ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج سے عدالت میں گواہان کی جرح شروع ہوگئی۔
اس سے قبل سیشن کورٹ میں علی ظفر کی درخواست پر کیس کی سماعت ہوئی اور ایڈیشنل سیشن جج شکیل احمد نے سماعت کی۔
علی ظفر اپنی قانونی ٹیم کے ہمراہ عدالت میں از خود پیش ہوئے اور عدالت نے عینی گواہ باقر علی کی شہادت قلمبند کی۔
سماعت کے دوران گلوکارہ میشا شفیع حاضر نہیں ہوئیں اور علی ظفر کے وکلاء نے عدالت کو آگاہ کیا کہ گلوکارہ کے وکلاء جان بوجھ کر کیس کو التواء کا شکار کر رہے ہیں۔
عدالت نے مختصر سماعت اور ایک گواہ کے بیان کو قلم بند کرنے کے بعد باقی گواہان کو آئندہ ماہ 4 مئی تک طلب کرلیا۔
دوسری جانب میشا شفیع کے وکیل احمد پنسوتا نے ڈان امیجز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ علی ظفر کے دعوے کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔
احمد پنسوتا کے مطابق میشا شفیع کا جنسی ہراساں سے متعلق پنجاب کے محتسب اعلیٰ میں دائر کیا گیا کیس خارج نہیں ہوا بلکہ کچھ تکنیکی وجوہات کی بناء پر تاخیر کا شکار ہوا ہے۔
احمد پنسوتا کا کہنا تھا کہ اب میشا شفیع اور علی ظفر کا کیس لاہور ہائی کورٹ میں بھی چل رہا ہے، اس لیے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے کیس پر سماعت کے بعد ان کی مؤکل کے جنسی ہراساں سے متعلق دائر کیے گئے کیس کی سماعت بھی ہوگی۔
علی ظفر پر جنسی ہراساں کرنے کے الزامات
خیال رہے کہ میشا شفیع اور علی ظفر کیس میں ایک ساتھ 2 مقدمات کی سماعت ہوتی ہے۔
ابتدائی طور پر میشا شفیع نے علی ظفر پر جنسی ہراساں کرنے کا کیس کیا تھا جب کہ بعد ازاں علی ظفر نے ان پر جھوٹا الزام عائد کرنے پر ہتک عزت کا مقدمہ کردیا تھا۔
سب سے پہلے میشا شفیع نے علی ظفر پر جنسی ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
میشا شفیع نے گزشتہ برس 19 اپریل 2018 کوایک ٹوئٹ کے ذریعے الزام عائد کیا تھا کہ انہیں ساتھی گلوکار علی ظفر نے متعدد بار ہراساں کیا۔
ان کے مطابق علی ظفر نے ایسے وقت میں جنسی طور پر ہراساں کیا، جب وہ خود کفیل اور معروف گلوکارہ و اداکارہ کے ساتھ ساتھ 2 بچوں کی ماں بھی تھیں۔
گلوکارہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر کئی سال تک خاموشی اختیار کی تاہم اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے وہ اس معاملے کو سامنے لا رہی ہیں۔
میشا شفیع کی جانب سے الزامات عائد کیے جانے کے بعد علی ظفر نے ان تمام الزامات کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف عدالت میں جانے کا اعلان کیا تھا۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ انہیں عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف جاری مہم ’می ٹو‘ کے بارے میں معلوم ہے اور انہیں اندازہ ہے کہ وہ کیوں اور کس لیے ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ وہ شادی شدہ اور جواں سالہ بیٹی اور بیٹے کے والد ہیں اور انہیں خواتین کی اہمیت و عزت کا اندازہ ہے۔
بعد ازاں علی ظفر نے میشا شفیع کو جھوٹا الزام لگانے کے خلاف 100 کروڑ روپے ہرجانے کا قانونی نوٹس بھجوایا تھا۔
میشا شفیع نے علی ظفر کے قانونی نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ علی ظفر نے اپنا لیگل نوٹس واپس نہ لیا تو وہ سول اور فوجداری قوانین کے تحت کارروائی کریں گی۔
دوسری جانب دونوں فنکاروں کے درمیان اس تنازع پر پاکستان کی شوبز انڈسٹری میں مختلف رائے نظر آئی تھی جس میں کسی نے میشا شفیع کی حمایت کی تو کسی نے علی ظفر کا ساتھ دیا۔
دونوں کا کیس گزشتہ ایک برس سے زیر سماعت ہے اور سیشن کورٹ نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ کیس کا فیصلہ 15 اپریل 2019 کو سنایا جائے گا، تاہم میشا شفیع نے مزید گواہ پیش کرنے کے لیے مہلت مانگی تھی، جس کے بعد تین دن قبل ہی لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کو حکم دیا تھا کہ کیس کو آئندہ تین ماہ میں نمٹایا جائے۔