زلمے خلیل زاد کا افغانستان کے حوالے سے عمران خان کے بیان کا خیر مقدم
افغانستان کے لیے امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے وزیراعظم عمران خان کے افغانستان کے حوالے سے بیان کا 'بھرپور خیرمقدم' کرتے ہوئے خطے میں امن کے قیام کے لیے پاکستانی کوششوں کی تعریف کی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ 'عمران خان کے افغانستان کے حوالے سے جاری کیے گئے گزشتہ روز کے بیان کا بھرپور خیر مقدم کرتا ہوں'۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی'کشیدگی کے خاتمے اور اندرونی مسائل کو روکنے کے لیے منصوبہ بنانے کی اپیل دیگر ممالک کو خطے میں اصلاحات کے لیے مثبت پہلو رکھتی ہے اور پاکستان کو قائدانہ کردار مل جاتا ہے'۔
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز اپنے بیان میں افغانستان میں تشدد میں اضافے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اس حوالے سے حیرانی ہے۔
مزید پڑھیں:وزیراعظم عمران خان کا افغانستان میں تشدد کے اضافے پر اظہار افسوس
ان کا کہنا تھا کہ 'گذشتہ 40 سال میں افغانستان تنازع کے باعث افغانستان اور پاکستان دونوں کو شدید نقصان ہوا ہے اور اب طویل انتظار کے بعد افغانستان امن مذاکراتی عمل کے ذریعے خطے میں قیام امن کے لیے ایک تاریخی موقع مل رہا ہے جس کی پاکستان نہ صرف مکمل حمایت کرتا ہے بلکہ مذاکرات میں شامل بھی ہے اور اس کا مقصد افغانستان کے شہریوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کی اجازت دینا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'اس صورت حال میں پاکستان کو افغانستان میں تمام فریقین کی جانب سے تشدد میں اضافے پر تشویش ہے، یہ نام نہاد حملے قابل مذمت ہیں اور امن عمل کی راہ میں مشکلات کا باعث ہوسکتے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں:افغانستان سے یکم مئی تک نصف امریکی فوجی چلے جائیں گے، طالبان کا دعویٰ
عمران خان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ 'پاکستان تمام فریقین کو اس لمحے کی اہمیت کو تسلیم کرنے اور اس پر قابو پانے کے لیے زور دیتا ہے، پاکستان نے امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے تمام سفارتی اور سیکیورٹی امور انجام دیے ہیں'۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے یہ بیان اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں نیٹو، افغان سیکیورٹی فورسز، طالبان اور دیگر گروہوں کی جانب سے 2019 کے ابتدائی مہینوں میں شہریوں کو نشانہ بنانے کے انکشاف کے بعد جاری کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق نیٹو ، افغان فورسز کے حملوں میں 305 شہری جاں بحق ہوئے جبکہ دہشت گروپوں کی حملوں میں 227 افراد مارے گئے جو افغان فورسز اور امریکی سربراہی میں نیٹو کے مقابلے میں واضح طور پر کم ہے۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے تعاون مشن کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ رواں برس یکم جنوری سے 31 مارچ تک 150 بچوں سمیت مجموعی طور پر 581 افراد کے جاں بحق ہو چکے ہیں۔
مزید پڑھیں:افغانستان: ’افغان اور امریکی فوجیوں کے حملوں میں زیادہ شہری جاں بحق ہوئے‘
اقوام متحدہ کے مشن کا کہنا تھا کہ انہیں حکومت مخالف عناصر کی جانب سے غیر خود کش ڈیوائسز کے ذریعے مسلسل شہریوں کو نشانہ بنانے اور شہریوں کو پہنچنے والے جانی نقصان میں اضافے پر سخت تشویش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ساتھ ہی فضائی کارروائیوں اور تلاشی کے عمل کے دوران شہریوں کو پہنچے والے غیر معمولی جانی نقصان کے اضافے پر بھی تشویش ہے جس سے حکومت کی حمایت یافتہ فورسز کے ہاتھوں شہریوں کے جانی نقصان میں مجموعی طور پر اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں فرہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق شہریوں کے جانی نقصان کی سب سے بڑی وجہ زمینی جھڑپیں یا کارروائیاں ہیں جو مجموعی تعداد کا تقریباً ایک تہائی ہیں۔
خیال رہے کہ طالبان کی جانب سے رواں ماہ ہی حملوں کا نیا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور اس کے فوری بعد سیکیورٹی فورسز کو پے در پے نشانہ بنایا گیا تھا اور دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کے باوجود کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا۔