• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

بلاول بھٹو کو ’ صاحبہ ‘ کہنے پر وزیراعظم عمران خان پر تنقید

شائع April 24, 2019 اپ ڈیٹ April 27, 2019
وزیر اعظم نے کہا تھا کہ  میں  ’ بلاول بھٹو صاحبہ ‘ کی طرح کاغذ کی پرچی پر نہیں آیا تھا— فوٹو : فیس بک، اے ایف پی
وزیر اعظم نے کہا تھا کہ میں ’ بلاول بھٹو صاحبہ ‘ کی طرح کاغذ کی پرچی پر نہیں آیا تھا— فوٹو : فیس بک، اے ایف پی

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے خطاب کے دوران چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کو ’ صاحبہ ‘ کہنے پر عوام کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے۔

جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ میں بہت جدوجہد کے بعد آیا ہوں، میں ’ بلاول بھٹو صاحبہ ‘ کی طرح کاغذ کی پرچی پر نہیں آیا تھا کہ مجھے والدہ نے جائیداد میں پارٹی دے دی۔

چیئرمین پیپلزپارٹی کو صاحبہ کہنے کے بعد وزیراعظم ان شخصیات میں شامل ہوگئے جو کسی شخص کو کمزور قرار دینے کے لیے اسے مخالف صنف سے منسوب کردیتے ہیں۔

خاص طور پر سیاست میں اکثر افراد مخالفین کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے انہیں خاتون کہتے ہیں جو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاتون ہونا کوئی غلطی یا بے عزتی کی بات ہے۔

عوامی رہنماؤں کو اپنے بیانات اور تقاریر میں استعمال کیے جانے والے الفاظ کا خیال کرنا چاہیے لیکن ہر چند ہفتوں بعد یہ یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ حقیقت میں الفاظ کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

وزیراعظم پاکستان کی جانب سے ایسا بیان دینا خطرے کی گھنٹی ہے اور ناخوشگوار ہے، کیا عمران خان کی زبان ایک مرتبہ پھر پھسل گئی یا پھر عمران خان حقیقت میں خاتون ہونے کو باعث توہین سمجھتے ہیں؟ سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ان کے اس بیان پر شدید تنقید جاری ہے۔

وزیراعظم کو ایسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں

سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اکثر صارفین کا ماننا ہے کہ ملک کے وزیراعظم کو ایسے الفاظ استعمال کرنازیب نہیں دیتا۔

معاذ احسن نے ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا کہ ’یہ صرف بلاول بھٹو پر حملہ نہیں بلکہ اس سے عمران خان کے ذہن سے متعلق ظاہر ہوتا ہے کہ خاتون ہونا، مرد ہونے سے کسی طریقے سے کم تر ہے، ان لوگوں پر رحم آتا ہے جن کے پاس خود پر فخر کرنے کے لیے صرف ان کی صنف ہے‘۔

اینکر مہر بخاری نے ٹوئٹ میں کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے بلاول بھٹو کو ’ صاحبہ‘ کہنا کسی کے لیے اچھا نہیں ہوا لیکن وزیراعظم پاکستانی سیاست میں اس سطح پر جارہے ہیں۔

عاصمہ شیرازی نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے بلاول بھٹو کو صاحبہ کا بیان غلط ہے ، ہم کسی کی بھی اور خاص طور پر وزیراعظم کی جانب سے ایسی زبان کے استعمال کی توقع نہیں کرتے۔

وزیراعظم کا بیان عہدے کے بر خلاف

ٹوئٹر پر اکثر صارفین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا بیان ان کے عہدے کے خلاف تھا۔

گُل بخاری نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا کہ ’ بلاول بھٹو کو صاحبہ کہنے سے وہ چھوٹے نہیں ہوجاتے بلکہ یہ صرف عمران خان کے غیر مہذب رویے کو ظاہر کرتا ہے، یہ وزیراعظم کے عہدے کی توہین ہے‘۔

خاتون ہونا کمزور ہونے سے منسوب کیوں ؟

سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بعض صارفین کی یہ بھی کہا گیا آخر کیوں خاتون ہونے کو کمزوری سے منسوب کیا جاتا ہے؟

کالم نگار حنا مہر ندیم نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’ عمران خان نے اپنی والدہ کے نام پر شوکت خانم میموریل ہسپتال بنایا جو کہ صاحبہ تھیں، ایک بیٹا اور وزیراعظم ہوتے ہوئے پاکستان کی 51 فیصد آبادی کی موجودگی کو بلاول بھٹو زرداری کے لیے طعنے کے طور پر استعمال کرنا افسوس ناک ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی عمر سے آدھے شخص کے سامنے چھوٹے دکھائی دیے ‘۔

ٹوئٹر صارف نے کہا کہ ’ آپ نے بلاول بھٹو زرداری کو بے عزت کرنے کے لیے ’ صاحبہ ‘ کہا ، کیا آپ کے لیے خاتون ہونے کا مطلب یہ ہے ؟ یہ نہیں بھولیں کہ آپ نے چیریٹی اور ہسپتال بنانے کےلیے ایک خاتون کے نام کا استعمال کیا تھا‘۔

صحافی سکندر کرمانی نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’عمران خان کی جانب سے سیاسی مخالف بلاول بھٹو کو خاتون کہنا بے عزتی ہے؟‘۔

ایک اور ٹوئٹر صارف نے ٹوئٹ کیا کہ ’عمران خان، ہمارے لیڈر بلاول بھٹو مرد ہیں لیکن ایک مرد کو عورت کہہ کر آپ خواتین کی توہین کررہے یا مرد کی؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خواتین کم تر ہیں جو آپ کسی مرد کے لیے استعمال کررہے؟‘۔

تاہم ٹوئٹر پر چند صارفین ایسے بھی ہیں جو وزیراعظم کی حمایت کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ شاید ایک مرتبہ پھر ان کی زبان پھسل گئی۔

ٹوئٹر صارف نے کہا کہ ’ میرا خیال ہے کہ عمران خان کی زبان ایک مرتبہ پھر پھسل گئی ‘۔

عدیل راجا نے ٹوئٹ کیا کہ ’ ان سب لوگوں کے لیے جنہیں عمران خان کی جانب سے بلاول بھٹو کو ’ صاحبہ ‘ کہنے پر مِنی ہارٹ اٹیکس ہوئے ، ایسا ہوسکتا ہے کہ ان کی زبان پھسل گئی، جس کی چند مثالیں یہاں ہیں‘۔

ایک اور ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’مجھے امید ہے کہ عمران خان اس بیان پر معافی مانگیں گے ‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ واقعی عمران خان کی زبان پھسلی تب بھی انہیں تقریر کے لکھاری اور ریہرسل کی ضرورت ہے کیونکہ وہ اب اپوزیشن میں نہیں ہیں ، وہ وزیراعظم ہیں‘۔

تاہم بلاول بھٹو زرداری، وزیراعظم کے اس بیان پر کچھ زیادہ پریشان دکھائی نہیں دیے، انہوں نے مندرجہ ذیل ٹوئٹ کیا:

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے بلاول بھٹو ہی کی ایک ویڈیو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ دوبارہ ‘۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے ٹوئٹ کیا کہ ’ یہ شرمناک ہے، سلیکٹڈ وزیراعظم اس عہدے کے اہل نہیں ہیں، پاکستان کے لیے افسوس ناک دن ہے‘۔

نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ٹوئٹ میں وزیراعظم عمران خان کے بیان کو نفرت انگیز قرار دے دیا۔

دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی نے بلاول بھٹو کے ٹوئٹ کے جواب میں کہا کہ ’پیپلزپارٹی کے حادثاتی چیئرمین صاحب!وزیراعظم نے بتایا ہے کہ آپ کو پارٹی کی چیئرمین شپ، مرحوم والدہ کی وصیت کے ذریعے ملی اور آپ نے سیاسی جدوجہد نہیں کی‘۔

وزیراعظم عمران خان کے بیان پر سیاسی رہنماؤں اور عوام کی جانب سے ردعمل دینے کا سلسلہ جاری ہے اور اس حوالے سے مختلف ہیش ٹیگز بھی سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹرینڈ کررہے ہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

mushtaq Apr 24, 2019 10:24pm
Imran Khan u r v.good at least in one thing ie passing sarcastic remarks. Kam Karo Kam . So Cheap of u Calling Bilawal Sahiba.
Hirra Apr 24, 2019 10:53pm
Logon ko to moqia chahiye or imran khan pe baras party hain. Dosry galti kren to koi baat nh imran kuch kahy to bs qayamat hogai. Hr choti bat pakar k beth jaty hain

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024