پشاور: پولیو مہم کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والا شخص جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
پشاور: مقامی عدالت نے انسداد پولیو مہم کے خلاف مبینہ طور پروپیگنڈا کرنے اور بچوں کی طبیعت خرابی کا ڈرامہ رچانے والے ملزم کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
پولیس نے گرفتار ملزم کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا اور بتایا کہ ملزم پر انسداد پولیو مہم کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا الزام ہے جبکہ ملزم نذر محمد سوئی گیس میں یومیہ اجرت پر ملازم ہے۔
اس پر ملزم کی جانب سے عدالت میں کہا گیا کہ میں نے کچھ نہیں کیا، مجھ پر لگائے گئے الزامات کی کوئی حقیقت نہیں، میں اپنے بچوں کو اسکول سے لینے گیا تھا، پولیو مہم کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔
ملزم نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں نے کچھ کیا ہی نہیں تو شرمندگی کس بات کی ہوگی۔
پولیو ویکسین ڈرامے کے ڈراپ سین کا سہرا میڈیا کے سر ہے، شوکت یوسفزئی
اس سارے واقعے پر صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پولیو ویکسین ڈرامے کے ڈراپ سین کا سہرا میڈیا کے سر ہے۔
شوکت یوسف زئی نے کہا کہ ایک اسکول سے شروع ہونے والے ڈرامے نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، 25 ہزار سے زائد بچوں کو والدین ہسپتالوں میں لائے اور یہ سارا ڈرامہ منظم سازش کے تحت کیا گیا۔
اپنی گفتگو کے دوران شوکت یوسف زئی کا کہنا تھا کہ ہم نے ریسکیو اور دیگر سروسز کے ساتھ عوام کو مکمل سہولت دی، تاہم کل کے واقعے کے بعد آنے والی رپورٹس پر افسوس ہے۔
مشتعل افراد کی جانب سے صحت مرکز کو جلانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کی شناخت جلد ہونے والی ہے، واقع کے بڑے کردار نذر محمد کو ایک روزہ ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے، عوام سے اپیل ہے کہ اس معاملے کو سیاسی رنگ نہ دیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیو ورکرز کے تحفظ کے لیے پورے اقدامات کیے جائیں گے، ہم دہشت گردی کو شکست دینے والی قوم ہیں، پولیو کو بھی شکست دیں گے، ہم ایٹمی طاقت ہیں پولیو کے باعث کمزور نہیں ہوسکتے۔
شوکت یوسف زئی کا مزید کہنا تھا کہ کل کے واقع میں سیاسی افراد کے اثر و رسوخ کے امکانات بھی ملے ہیں، اس معاملے کی تحقیقات کریں گے اور ذمہ داروں کو سز دی جائے گی۔
قبل ازیں پولیس نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں مبینہ طور پر انسداد پولیو مہم کے خلاف غلط معلومات فراہم کرنے والے شخص کو گرفتار کرلیا تھا۔
یہ ویڈیوز گزشتہ روز صوبے میں انسداد پولیو مہم کے دوران مختلف شہروں میں بچوں کی طبیعت خرابی اور انہیں ہسپتال میں داخل کروانے سے متعلق تھیں۔
مزید پڑھیں: پشاور: اسکول کے 75 بچوں کی حالت غیر،مشتعل افراد کا صحت مرکز پر دھاوا
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر زیر گردش ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پشاور کے علاقے ماشوخیل کا رہائشی نذر محمد حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ہے، جہاں بڈھ بیر کے اسکول کے ان بچوں کو لایا گیا ہے جنہیں انسداد پولیو مہم کے دوران طبیعت خرابی کی شکایات ہوئی تھیں۔
اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نذر محمد انتظامیہ پر الزام لگاتے ہوئے بچوں کی طبیعت خرابی کی وجہ ویکسین کو قرار دے رہا ہے اور اپنے برابر میں کھڑے بچوں کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ یہ سارے بے ہوش پڑے ہیں۔
ویڈٰیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ملزم بچوں کو حکم دے رہا ہے کہ ’سوجاؤ‘ جس کے فوری بعد بچے ہسپتال کے بستر پر لیٹ جاتے ہیں جیسے وہ بیمار ہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ جب ایک بچہ اٹھنے کی کوشش کرتا ہے تو ویڈیو میں موجود نذر محمد اسے دوبارہ ’سونے‘ کا کہتا ہے جس پر وہ بستر پر دوبارہ لیٹ جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ایک اور ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نذر محمد صحافیوں سے بات کر رہا ہے جبکہ اطراف لوگ کھڑے ہیں، وہ الزام لگا رہے ہیں کہ ان کی ویڈیو میں موجود کچھ بچے ویکسین کے بعد مر گئے۔
تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) خیبرپختونخوا کے ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ان ویڈیو کو ’بے نقاب‘ کے کیپشن کے ساتھ ٹوئٹ کیا اور لکھا کہ دیکھیے کس طرح معصوم بچوں کو ہسپتال میں بستروں پر لٹایا جارہا اور یہ ظاہر کیا جارہا کہ جیسے وہ پولیو ویکسین کی وجہ سے اس کا شکار ہوئے ہیں اور لوگوں میں پولیو مہم سے متعلق غلط پیغام دیا گیا۔
واضح رہے کہ خیبرپختونخوا اور سابق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں انسداد پولیو ویکسین سے منع کرنے کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں، صوبائی حکام اور انسداد پولیو مہم کے دستاویز کے مطابق اورل پولیو ویکسین (او پی وی) سے متعلق 2004 سے غلط فہمیاں پھیلائی گئیں، جب ان علاقوں میں کچھ ایسے عناصر اور عسکریت پسندوں نے افواہیں پھیلائیں کہ او پی وی میں کچھ ہارمونز شامل کیے گئے۔
انسداد پولیو مہم سے متعلق پھیلایا گیا خوف
واضح رہے کہ گزشتہ روز پشاور بھر میں خوف کی فضائی قائم کی گئی کہ بڈھ بیر میں اسکول کے 75 طلبا کو مبینہ طور پر انسداد پولیو مہم کے دوران سر درد، متلی اور پیٹ کے درد کی شکایات ہوئیں، جنہیں حیات آباد میڈٰیکل کمپلیکس منتقل لیا گیا، بعد ازاں ڈاکٹرز نے انہیں یہ کہ کر گھر جانے دیا کہ بچوں کی حالت بہتر ہے۔
اس واقعے پر بچوں کے اہل خانہ اور علاقہ مکین مشتعل ہوگئے اور علاقے کے بنیادی صحت کے مراکز کے دروازے اور کھڑکیاں توڑ دیں جبکہ کچھ حصے کو آگ بھی لگادی اور پولیو ورکرز کو یرغمال بنانے کی کوشش کی۔
واقعے کے بعد خوف میں مبتلا والدین اپنے بچوں کو طبی معائنے کے لیے ہسپتال لائے اور تقریباً 300 بچوں کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال لایا گیا، اس کے ساتھ ساتھ ان افواہوں کو مزید بڑھاوا اس وقت ملا جب مساجد سے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے بچوں کو ویکسین نہ کروانے کا انتباہ جاری کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اربوں روپے کے انسداد پولیو اور ہائی وے منصوبوں کی منظوری
تاہم صحت ورکرز کا کہنا تھا کہ زیادہ تر بچوں کو علاج کے بعد جانے دیا گیا جبکہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ یہ نفسیاتی معاملہ تھا جس نے بچوں پر اثر ڈالا جبکہ چارسدہ میں بھی 800 بچے ہسپتال لائے گئے۔
ان تمام افواہوں اور پیدا کیے گئے خوف پر صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس انکوائری رپورٹ ہے اور اس میں ایک چیز جو اس طرف اشارہ کرتی ہے وہ گھبراہٹ ہے، جس کا آغاز اسکول کی جانب سے کیا گیا اور اس حوالے سے ان کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی‘۔
صوبائی وزیر نے کہا تھا کہ ان 2، 3 اسکولوں نے اس سے قبل انسداد پولیو مہم سے انکار کیا تھا اور وہ بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلوانا چاہتے تھے۔
ہشام انعام اللہ کی اس بات کو مزید تقویت چیف پولیس افسر قاضی جلیل الرحمٰن نے دی، جنہوں نے کہا کہ پولیو ویکسین سے مبینہ ری ایکشن کا معاملہ اسکول کی جانب سے اٹھایا گیا۔