• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

حیات آباد آپریشن میں ہلاک ملزمان متعدد حملوں میں ملوث تھے، پولیس

شائع April 23, 2019
آپریشن کے دوران 2 سیکیورٹی اہلکار  اے ایس آئی قمر عالم اور لانس نائیک ظفر اقبال جاں بحق ہوئے— فائل فوٹو/اے پی پی
آپریشن کے دوران 2 سیکیورٹی اہلکار اے ایس آئی قمر عالم اور لانس نائیک ظفر اقبال جاں بحق ہوئے— فائل فوٹو/اے پی پی

پشاور پولیس کا کہنا ہے کہ حیات آباد میں گزشتہ ہفتے ہونے والے آپریشن میں ہلاک ملزمان نہ صرف مستقبل میں حملوں کی تیاری کر رہے تھے بلکہ اس سے قبل بھی جج پر حملہ سمیت متعدد دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تھے۔

پشاور میں 17 گھنٹوں تک جاری رہنے والے آپریشن میں مبینہ 5 ملزمان ہلاک ہوئے تھے، جس کے حوالے سے کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) پشاور قاضی جمیل اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) عبدالغفور آفریدی نے میڈیا کو بریفنگ دی۔

سی سی پی او کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک گینگ تھا جو یہاں سے آپریٹ ہورہا تھا، اس گینگ میں 6 لوگ تھے جن میں سے 5 ہلاک اور ایک زخمی حالت میں گرفتار ہوگیا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہلاک ہونے والے ایک ملزم کا نام امجد تھا جو ضلع خیبر کا رہائشی تھا اور وہ تمام بڑے سانحوں میں ملوث رہا، وہ 5 مرتبہ افغانستان گیا اور دبئی اور یونان بھی جاچکا تھا جہاں سے ان کو ڈپورٹ کردیا گیا تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ایسے افراد پہلے افغانستان سے آتے تھے لیکن وہ پاسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے اور یہاں بھی ایسا ہی ہوا ہے‘۔

سی سی پی او کا کہنا تھا کہ آپریشن کے دوران 2 سیکیورٹی اہلکار بھی جاں بحق ہوئے جن کی شناخت اے ایس آئی قمر عالم اور لانس نائیک ظفر اقبال کے نام سے ہوئی۔

حکام کا کہنا تھا کہ واقعے میں زندہ بچ جانے والے واحد ملزم کا نام سعید ہے اور وہ زخمی حالت میں سی ٹی ڈی کی حراست میں موجود ہے۔

سی سی پی او کا کہنا تھا کہ حیات آباد واقعے میں ضبط کیا گیا اسلحہ اور پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایوب خان پر ہونے والے حملے میں استعمال ہونے والا اسلحہ ایک ہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملزمان کے پاس دستی بم بھی تھا جو انہوں نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر پھینکا پولیس کے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران انہوں نے فائرنگ کی جس کی وجہ سے اے ایس آئی شہید ہوا۔

حکام کا کہنا تھا کہ ’پولیس گھر کو زمین بوس نہیں کرنا چاہتی تھی تاہم ایسا تب ہوا جب گھر سے ملنے والا آئی ای ڈی کو ناکارہ بنایا گیا‘۔

پولیس کی جانب سے میڈیا بریفنگ ایسے وقت میں سامنے آئی جب گزشتہ روز جماعت اسلامی کی جانب سے آپریشن پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا اور واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

جماعت اسلامی ضلع خیبر کے صدر شاہ فیصل آفریدی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ حیات آباد آپریشن پر شکوک و شہبات ہیں جس کی وجہ سے اس کی غیر جانب دار جوڈیشل کمیشن سے تحقیقات کرائی جانی چاہیے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024