حکومت ملک میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نفاذ کیلئے آئی ایم ایف کی شرط پر رضامند
حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے ملک میں وفاق اور صوبائی آمدن کو بڑھانے کے لیے سنگل ویلیو ایڈڈ ٹیکس (وی اے ٹی) کے نفاذ پر رضامندی کا اظہار کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری دستاویزات سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کو آمدن بڑھانے کے لیے اضافی کوششیں کرنی ہو گی جو ملکی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کے 2.6 فیصد تک ہوگا۔
آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 3 سالہ اصلاحاتی عمل کے دوران وفاقی سطح پر ٹیکسز میں 2.3 فیصد تک اضافہ کیا جائے گا جو مجموعی طور پر 10 کھرب 80 ارب روپے تک ہوگا۔
ان ٹیکسز کو لاگو کرنے کا عمل آئندہ مالی سال 20-2019 سے کردیا جائے گا جس میں 1.1 فیصد اضافہ کیا جائے گا، اس کے بعد مالی سال 20-2021 میں 0.9 فیصد جبکہ 21-2022 میں 0.3 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف پیکج میں تاخیر، 2 ارب 32 کروڑ ڈالر کی بیرونی امداد موصول ہوئی
اس کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح پر ٹیکسز کو بھی 0.1 فیصد سالانہ بنیادوں پر بڑھایا جائے گا تاکہ مالی سال 21-2022 میں 1.6 فیصد تک ٹیکس سے جی ڈی پی کے تناسب کو حاصل کیا جاسکے جو رواں مالی سال کے دوران 1.3 فیصد ہے۔
مذکورہ پیشرفت سے متعلق دستاویزات کے مطابق وسیع پیمانے پر ٹیکس اقدامات سے مختلف اہداف حاصل کرنے کی اُمید لگائی گئی تھی، جس میں انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پر اضافی ٹیکس کریڈٹ اور استثنیٰ کو ختم کرکے ٹیکس اخراجات میں واضح کمی کرنا شامل ہے جبکہ اس کے ساتھ سنگل ایڈڈ ویلیو ٹیکس (وی اے ٹی) کے نفاذ سے خصوصی طریقہ کار کو دور کیا جائے گا جبکہ شرح ٹیکس کو کم کیا جائے گا۔
اس حوالے سے حکام کا کہنا تھا کہ اس وسط مدتی مالیاتی تخمینے سے متعلق آئی ایم ایف پروگرام کے تحت سالانہ بنیادوں پر کلیدی اقدامات کے ممکنہ نتائج سامنے آئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’آئی ایم ایف کے پاس جانا تباہ کن ہوگا‘
اگر حکومت پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارہ معاہدے کے بعد پہلے مالی سال کے دوران جی ڈی پی کو 1.1 فیصد تک بڑھانے پر رضامندی کا اظہار کرتے ہیں تو اس سے 0.4 فیصد تک جی ڈی پی کا ایک بڑا حصہ متاثر ہوگا جو تقریباً 175 ارب روپے تک ہوسکتا ہے۔
تاہم اس پر قابو پانے کے لیے وی اے ٹی کا نفاذ ضروری ہوگا جو 0.3 فیصد کی بحالی میں معاون ثابت ہوگا جبکہ دیگر فرق ٹیکس میں دی جانے والی چھوٹ کے خاتمے سے پورا کیا جائے گا۔
اس حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حکام کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے دیگر پالیسی اور اصلاحاتی اقدامات میں بیکنگ سیکٹر پر لگائے جانے والے ود ہولڈنگ ٹیکس کی کمی شامل ہے جس کی وجہ سے بینکنگ سیکٹر پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور یہ آمدن پر بھی اثرانداز ہورہے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کارپوریٹ ٹیکس ریٹ کو 29 یا 30 فیصد پر برقرار رکھنے اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پر اخراجات کو بڑھانے کی بھی خواہش مند ہے۔