ناکام اسد عمر کی جگہ ناکام ترین عبدالحفیظ شیخ!
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت بننے کے چند ماہ بعد ہی کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آگئی، مگر اس تبدیلی میں تبدیلی سرکار کے اسٹار اور پوسٹر وزیر اسد عمر کو وزارتِ خزانہ کے قلمدان سے ہاتھ دھونا پڑا اور وہ کابینہ ہی چھوڑ گئے۔
اس سے بڑی خبر یہ ہے کہ اسد عمر کی جگہ کو ’پُر‘ کرنے کے لیے وزیرِاعظم عمران خان کو اپنی پارٹی میں کوئی بھی قابل فرد نظر نہیں آیا اور انہیں مجبوراً پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کی کابینہ کا حصہ رہنے والے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو نئے پاکستان میں وزارتِ خزانہ کا چارج دینا پڑگیا۔
چلیے یہ تو حکومت اور حکومتی پارٹی کا مسئلہ ہے، ہم اس بحث میں پڑے بغیر اس تحریر میں ان حالات کا جائزہ لیں گے جس میں اسد عمر معیشت کوچھوڑ کر گئے ہیں اور انہوں نے گزشتہ 8 ماہ میں کیا کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ صرف اسد عمر پر ہی نہیں، بلکہ ہم نئے آنے والے عبدالحفیظ شیخ کے کارناموں پر بھی نظر ڈالیں گے۔
مزید پڑھیے: پی ٹی آئی رہنماؤں کی اسد عمر سے ان کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست
اسد عمر وزیر بننے سے پہلے
پاکستان جیسے ممالک جہاں معاشی مسائل سے بڑھ کر کوئی اور مسئلہ نہیں ہوتا، وہاں معاشی ٹیم ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کرجاتی ہے۔ تحریک انصاف کی بات کی جائے تو یہ وہ شاید واحد جماعت تھی جس نے حکومت بننے سے پہلے ہی اپنے وزیرِ خزانہ کا اعلان کردیا تھا، اس کی وجہ شاید یہی تھی کہ ان کے نزدیک ان سے زیادہ قابل فرد کوئی اور تھا ہی نہیں۔
معیشت کے حوالے سے اسد عمر پارٹی اور عمران خان کے ناک، کان اور زبان بن گئے۔ ڈالر، بیرونِ ملک اثاثوں، آف شور کمپنیوں، مہنگائی، پیٹرول کی قیمت، ٹیکس کی وصولی سمیت تمام تر معاملات پر اسد عمر کا کہا پارٹی میں پتھر پر لکیر ہوجایا کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اپوزیشن کے دور میں پی ٹی آئی نے اسد عمر کو بطورِ شیڈو وزیرِ خزانہ کا درجہ دیا ہوا تھا اور عمران خان نے متعدد مرتبہ اس بات کا اعلان کیا تھا پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تو اسد عمر ہی وزیرِ خزانہ ہوں گے۔
اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ پہلی جس وزارت کا فیصلہ ہوا، وہ وزارتِ خزانہ ہی تھی۔
چلیے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے، ذرا پیچھے چلتے ہیں۔ اسد عمر کے پاس بینکاری کا قلیل اور کارپوریٹ سیکٹر کا وسیع تجربہ موجود تھا۔ آئی بی اے سے بزنس کی ڈگری حاصل کی اور ہانگ کانگ شنگھائی بینک میں کچھ عرصہ ملازمت کی جس کے بعد انہیں 1985ء میں موبل ایگزون کینیڈا میں ملازمت مل گئی۔ والد کے ڈپلومیٹک رابطوں کی وجہ سے وہ موبل ایگزون پاکستان آگئے اور پھر اسی کمپنی سے وابستہ رہے۔ بعد میں پہلے اینگرو پولی مر اور پھر اینگرو کیمیکلز کے چیف ایگزیکٹو تعینات ہوئے۔
اسد عمر سے میری جان پہچان سال 2005ء میں ہوئی جب میں نے ان کا بحیثیت چیف ایگزیکٹو اینگرو کیمیکلز کے پہلا انٹرویو کیا۔ اس کے بعد متعدد انٹرویوز اور پریس کانفرنسوں میں اسد عمر سے ملاقاتیں کرنے اور ان کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔
سال 2007ء میں جب پرویز مشرف نے ایمرجنسی پلس لاگو کیا اور میڈیا پر پابندی عائد کردی تو اسد اس حوالے سے ہونے والے مظاہروں میں بھی شریک ہوتے رہے۔ سال 2008ء میں اسد عمر نے سیاست کی جانب قدم بڑھانے شروع کردیے اور ابتدا میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب اپنا روئے سخن کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2009ء میں انہوں نے صدر آصف علی زرداری سے تمغہ امتیاز بھی حاصل کیا۔ سال 2012ء میں اسد عمر نے اینگرو کیمیکلز سے استعفی دیا اور پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔
اسد عمر وزیرِ خزانہ بننے سے پہلے اسٹیٹ بینک بورڈ کے ڈائریکٹر، کراچی اسٹاک ایکس چینج، پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او)، پورٹ قاسم اتھارٹی، جنیکو ہولڈنگ کمپنی، داؤد ہرکوئلس، پاکستان ڈیری ڈیولپمنٹ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی شامل رہے جبکہ پاکستان بزنس کونسل، پاکستان انرجی اینڈ کیمیکل ڈیولپمنٹ کمپنی اور اینگرو سبسیڈائیریز کے چیئرمین بھی رہے۔
اب جبکہ اسد عمر بطورِ وزیرِ خزانہ رخصت ہورہے ہیں تو سوچا کیوں نہ چند میکرو اکنامک انڈیکیٹرز پر نظر ڈال لی جائے تاکہ ان کے دور میں ہونے والے اقدامات کا اچھی طرح سے اندازہ ہوسکے۔
مزید پڑھیے: ’سیاست کرکٹ نہیں کہ 8 ماہ کی تباہی کے بعد ٹیم بدل دی‘
اسد عمر بطورِ وزیر خزانہ
جس وقت اسد عمر نے بطور وفاقی وزیر چارج سنبھالا تو اس وقت انٹر بینک میں ایک ڈالر 123 روپے 75 پیسے کا تھا اور جب چارج چھوڑا تو ڈالر 141روپے 51 پیسے پر ہے۔
اسی طرح سے گزشتہ 8 ماہ کے دوران دوست ملکوں چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 6 ارب ڈالر ملنے کے باوجود ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر کی سطح پر برقرار ہیں۔
اسد عمر کے جس اقدام کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہ ہے مہنگائی اور بنیادی شرح سود میں اضافہ۔ اسد عمر کے حلف اٹھاتے وقت بنیادی شرح سود 7.5 فیصد تھی جبکہ ان کے چارج چھوڑتے وقت بنیادی شرح سود 10.75 فیصد ہے، یوں ان کے قلیل سے دور میں بنیادی شرح سود میں 3.5 فیصد کا اضافہ ہوا اور اس وقت پاکستان کی بنیادی شرح سود خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
اسی طرح مہنگائی کی شرح جو 5.8 فیصد تھی وہ اب بڑھ کر 9.4 ہوگئی ہے۔ پیٹرولیم کے ساتھ ساتھ ادویات کی قیمت میں اضافہ بھی پی ٹی آئی پر تنقید کا سبب بنا۔
ماہرین کہتے ہیں افراطِ زر ٹیکس کی بدترین مثال ہے، کیونکہ ٹیکس فیصد میں لگتے ہیں اور افراط زر جب بڑھتا ہے تو ٹیکس کی وصولی بڑھ جاتی ہے۔ مگر افراطِ زر میں اضافے کے باوجود ٹیکسوں کی وصولی میں حقیقی طور پر 300 ارب روپے کی کمی دیکھی جارہی ہے۔
اسد عمر کے دورِ وزارت میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بہت کم سطح پر رہا کیونکہ جب انہوں نے وزارت کا چارج سنبھالا تو پاکستان اسٹاک مارکیٹ کا بنچ مارک ہنڈرڈ انڈیکس 42446 پر تھا۔ مگر اب جبکہ اسد عمر رخصت ہوئے ہیں تو وہی انڈیکس 36811 پر چھوڑ گئے ہیں، یعنی انڈیکس میں تقریباً 5635 پوائنٹس کی کمی ہوئی۔
یہ سب کچھ کیوں ہوا اس کی وجوہات پر متعدد مرتبہ گفتگو کی جاچکی ہے۔ دسمبر ہی میں یہ بات راقم الحروف نے اپنی تحریر میں واضح کردی تھی کہ کپتان اور وزیرَ خزانہ کے درمیان تال میل نہیں ہے۔
پھر حال میں یہ مسائل بڑھتے چلے گئے، جیسے کپتان کسی بھی صورت آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا چاہتے تھے، لیکن اسد عمر گئے۔ اسی طرح کپتان ایمنسٹی اسکیم کے مخالف تھے لیکن اسد عمر نے اس میں بھی اپنی مرضی چلائی، یہ الگ بات ہے کہ کابینہ نے فی الوقت یہ اسکیم مسترد کی ہوئی ہے۔
مگر کیا صرف اوپر بیان کردہ اعداد و شمار ہی اسد عمر کی رخصتی کا سبب بنے؟ ان تمام بدترین میکرو اکنامک انڈیکیٹرز کے باوجود اسد عمر کی تبدیلی کا فیصلہ امریکا میں ہونے والی آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی موسمِ بہار کے اجلاسوں کی کارکردگی کی بنیاد پر کیا گیا ہے اور جیسے ہی اسد عمر یہ اجلاس کرکے وطن پہنچے ہیں انہیں ہٹانے کی باتیں ہونے لگیں۔
مزید پڑھیے: ملک کیلئے فائدہ مند نہ ہونے والے وزرا کو تبدیل کردوں گا، عمران خان
وزارتِ خزانہ کے اہم افسران کہتے ہیں کہ پاکستانی وفد کو اس مرتبہ جس قدر نظر انداز کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ امریکی سیکرٹری خزانہ اسٹیو میونچ جو وزیرِ خزانہ کے مساوی ہوتا انہوں نے اسد عمر کو ملاقات کا وقت ہی نہیں دیا۔ اس کے علاوہ خبریں کچھ ایسی بھی ہیں کہ اسد عمر عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے حکام کو اپنی حکومت کا روڈ میپ دینے میں بھی ناکام رہے۔
اسد عمر کی عالمی مالیاتی بیوروکریسی میں پذیرائی نہ ہونے کی وجہ سے ہی شاید عمران خان ایک ایسے شخص کو وزارتِ خزانہ کا ذمہ دار بنانے پر مجبور ہوئے جو اگرچہ پیپلز پارٹی کے وزیرِ خزانہ کی حیثیت سے بھی کام کرچکے ہیں، مگر عالمی دنیا میں کچھ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ جی میرا اشارہ عبدالحفیظ شیخ کی جانب ہے۔
عبدالحفیظ شیخ بطورِ وزیر خزانہ
عبدالحفیظ شیخ عالمی بینک کے ساتھ وابستہ رہ چکے ہی اور عالمی مالیاتی بیوروکریسی کو بخوبی سمجھتے بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے 35 سال پر محیط پیشہ ورانہ کیریئر میں ملک کے اندر اور بیرون ملک متعدد اہم ٹاسک پورے کیے ہیں۔ وہ عالمی بینک کے سعودی عرب میں ملکی سربراہ کے علاوہ 21 ممالک میں بطور عالمی بینک کے سینئر مشیر کے طور پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں 2000ء سے 2001ء تک وہ سندھ کے نگران وزیر برائے مالیات، منصوبہ بندی اور ترقیات تعینات ہوئے۔ اس دوران انہوں نے صوبہ سندھ کے مالیاتی نظم و نسق کی تنظیمِ نو کی اور ٹیکسوں کی شرح کم کرکے وصولیوں میں اضافہ کیا۔ سندھ حکومت کے ذمے 20 ارب روپے کے بل ادا کیے اور اسٹیٹ بینک کا 11 ارب ڈالر کا اوور ڈرافٹ واپس کیا۔
بطور وزیرِ نجکاری عبد الحفیظ شیخ نے 34 سرکاری کاروباری اداروں کی فروخت کی جس سے 5 ارب ڈالر حکومت کو حاصل ہوئے۔ نجکاری برائے عوام کے تحت 8 لاکھ افراد کو مختلف کمپنیوں کے حصص کی اولین عوامی فروخت بھی ممکن بنائی۔ سال 2006ء میں عبدالحفیظ شیخ نے شوکت عزیز کابینہ کو خیر باد کہہ دیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو جب وزیرِ خزانہ کی تلاش ہوئی تو عالمی بیوروکریسی نے عبدالحفیظ شیخ کا نام تجویز کیا اور انہوں نے سال 2010ء سے 2013ء کے دوران وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھلا۔ مگر اس مرتبہ عبدالحفیظ شیخ تمام تر تجربے اور صلاحیت کے باوجود پاکستان کو مالیاتی امور میں قیادت فراہم کرنے میں ناکام نظر آئے۔
ان کے دورِ وزارت کو ملکی تاریخ کا مایوس کن دور قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس دور میں ان کی جانب سے پیش کیے گئے بجٹ کو دیکھ کر ماہرین حیران رہ گئے تھے، کیونکہ وہ بجٹ نہ تو زمینی حقائق کی روشنی میں بنائے گئے تھے اور نہ ان میں عوامی توقعات کا خیال رکھا گیا تھا۔ مگر دوسری طرف یہ بجٹ عالمی مالیاتی اداروں کو بھی قابل قبول نہیں تھے۔ ان کے پیش کردہ بجٹ میں نہ تو عوام کو کوئی ریلیف ملا اور نہ ہی معیشت میں اصلاحات ہوئیں۔
عبدالحفیظ شیخ کے دور میں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر رہی مگر اس کے باوجود ٹیکسوں کی وصولی کے اہداف پورے نہ ہوسکے۔ اس کے علاوہ بجٹ خسارے میں تیزی سے اضافہ ہوا اور مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں تیزی سے کمی ہوئی بلکہ منفی ہوگئی۔
عبدالحفیظ شیخ بھی اسد عمر کی طرح یہ کہتے تھے کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ انہوں نے 7 لاکھ ٹیکس نادہندگان کو نوٹسز جاری کرنے کا اعلان بھی کیا مگر اس کا نتیجہ کیا ہوا کسی کو نہیں معلوم۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور کابینہ میں عبدالحفیظ شیخ کی شمولیت عمران خان نے اس بیانئے کی نفی ہے جو انہوں نے سابقہ حکمرانوں کے لیے اپنایا تھا۔ کیونکہ عمران خان کا موقف شروع سے ہی یہ رہا ہے کہ گزشتہ 10 سالوں میں پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ نے قومی خزانے اور عوام کو لوٹا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی کے دور میں زرداری صاحب بغیر وزیر خزانہ کو ملائے لوٹ مار کرسکتے تھے؟
ان باتوں سے قطع نظر، اگر عبدالحفیظ شیخ ماضی میں بطورِ کامیاب وزیر خزانہ خدمات سر انجام دے چکے ہوتے تو پھر بھی یہ تقرری کسی قدر ہضم ہوجاتی، لیکن انہوں نے ماضی میں ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے کے سوا شاید کچھ بھی نہیں کیا۔ ایسی صورت میں خان صاحب کیسے اس تعیناتی کو ٹھیک ثابت کریں گے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
تبصرے (9) بند ہیں