طالبان کا افغان وفد کی طویل فہرست پر اعتراض، امن مذاکرات مشکلات کا شکار
افغان نمئندوں اور افغان طالبان کے درمیان کانفرنس آغاز سے قبل ہی مشکلات کا شکار ہوگئیں، طالبان نے 250 افراد پر مشتمل کابل کے وفد کی فہرست پر اعتراض کردیا۔
افغان صدر اشرف غنی کی انتطامیہ نے گزشتہ روز دوحہ میں رواں ہفتے منعقدہ امن مذاکرات میں شرکت کے لیے سرکاری سمیت تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی فہرست کا اعلان کیا تھا۔
تاہم طالبان نے اس طویل فہرست پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا اتنے زیادہ لوگوں سے ملنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’کابل کی فہرست بنانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک پہلے سے طے شدہ خلیجی ممالک میں ہونے والی کانفرنس ہے نہ کہ کابل کے کسی ہوٹل میں ہونے والے کسی کی شادی کی تقریب کا دعوت نامہ‘۔
مزید پڑھیں: طالبان سے ملاقات کے لیے 250 افراد پر مشتمل افغان وفد کا اعلان
طالبان جو اشرف غنی اور ان کی حکومت کو امریکا کی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں، کا کہنا تھا کہ وہ کابل سے کانفرنس میں مذاکرات نہیں کریں گے اور انتظامیہ کا کوئی بھی شخص اگر اس کانفرنس میں شرکت کرے گا تو وہ ذاتی حیثیت میں شرکت کرے گا۔
علاوہ ازیں مذاکرات پر مزید مشکلات اس وقت پیش آئیں جب اشرف غنی کی حکومت کے چند اراکین نے اعلان کیا کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔ افغان انٹیلی جنس کے سابق سربراہ اور طالبان کے ناقد ان افراد میں شامل تھے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان کو براہ راست اور ترجیحی بنیاد پر افغان حکومت سے مذاکرات کرنے چاہیے‘۔
اپوزیشن کے ایک اہم رکن اور سابق گورنر صوبہ بلخ بھی اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کرنے والوں میں شامل تھے تاہم انہوں نے وفد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اشرف غنی کی سیاسی جانبدار فہرست ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا-طالبان مذاکرات: افغان حکومتی نمائندوں کی بڑے وفد میں شمولیت کا امکان
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اس مذاکرات میں اتنی کم تعداد کے ساتھ شرکت نہیں کریں گے، یہ اشرف غنی کا امن مرحلے کو سبوتاج کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے‘۔
پاکستان میں طالبان کے سینیئر کمانڈر نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’وفد کی فہرست ثابت کرتی ہے کہ امریکا اور اس کی کٹھ پتلی افغان حکومت امن مذاکرات کو سنجیدہ نہیں لے رہی ہے‘۔
دوسری جانب اشرف غنی نے افغان وفد سے ملاقات کی جس میں انہوں نے کسی بھی قسم کی مشکلات کی نشاندہی نہیں کی اور کہا کہ ’ہم اور افغان قوم امید کرتی ہے کہ قطر میں طالبان سے ملاقات کے بعد آپ کامیابی سے گھر لوٹیں گے‘۔