ورلڈ کپ میں بینچ پر بٹھانے کے لیے کن کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جائے؟
اعداد و شمار بھلے ہی پوری کہانی نہ بتاتے ہوں مگر آپ کبھی بھی نمبروں کو نہیں جھٹلاسکتے۔ گزشتہ کم و بیش 9 ماہ کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم نے ایک روزہ کرکٹ میں 23 میچوں میں سے 12 میں شکست کا مزہ چکھا اور 11 میچوں میں کامیاب رہی۔
یہاں اب آگے سے یہ سننے کو مل سکتا ہے کہ چونکہ آسٹریلیا کے خلاف حال ہی میں کھیلی جانے والی اس سیریز کے میچوں کو بھی اعداد میں شامل کیا گیا ہے جس میں نوجوان کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو پچھاڑ دیا گیا تھا، اس لیے یہ اعداد غلط ہیں۔ آسٹریلیا کے حالیہ نتائج کو نکال بھی دیں تو بھی قومی ٹیم نے 16 میچوں میں سے 10 میں کامیابی حاصل کی ہے، یہاں جواباً یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی وجہ پاکستان کی جانب سے زمبابوے کو 0-5 سے دی جانے والی شکست ہے۔ خیر جو بھی ہو، ایک عرصے سے پاکستان کا ہار جیت کا تناسب مایوس کن یعنی 0.833 رہا ہے۔ (3.200 کے ساتھ جیت ہار کا سب سے بہترین تناسب جنوبی افریقہ کے پاس ہے، جس نے 21 میچوں میں سے 16 میں کامیابی حاصل کی۔)
اب جبکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے تھنک ٹینک ورلڈ کپ کے لیے بہترین ٹیم کو آخری شکل دینے والے ہیں تو ایسے میں اس خراب ریکارڈ کو ضرور خاطر میں لایا جائے، جو یقینی طور پر پریشان کن ہے۔ وہ 3 سیریز جن میں ’فرسٹ الیون‘ نے ساتھ مل کر کھیل پیش کیا، ان میں ایشیا کپ، جنوبی افریقہ کے خلاف ملک سے باہر سیریز اور نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز شامل ہیں۔
اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ ان تینوں سیریز کے موقعے پر ٹیم منیجمنٹ نے کون سی فرسٹ الیون ٹیم منتخب کی تھی، تو ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ اس میں
- فخر زمان،
- امام الحق،
- بابر اعظم،
- محمد حفیظ،
- شعیب ملک،
- سرفراز احمد،
- شاداب خان،
- فہیم اشرف،
- عماد وسیم،
- حسن علی اور
- شاہین شاہ آفریدی شامل تھے۔
مذکورہ 11 کھلاڑیوں کی انگلینڈ جانے کی ٹکٹیں کٹ چکی ہیں۔
ان تینوں موقعوں پر پریشانی کی بات یہ رہی کہ قومی ٹیم کو جب مشکل چیلنج کا سامنا ہوا تو اس میں خامی نظر آئی۔ جبکہ آسٹریلیا کے خلاف سریز میں نظر آنے والی خامیوں کو سامنے رکھتے ہوئے سلیکٹرز برطانیہ میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ کے لیے فائنل لسٹ کے لیے دیگر آپشنز کی تلاش میں مصروف ہیں۔ یہاں بقیہ 4 خالی رہ جانے والی جگہوں کے لیے بینچ پر بیٹھنے والے کھلاڑیوں کے مختلف آپشنز کا ایک جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
محمد رضوان
ذہنوں میں گھر کر جانے والی آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں محمد رضوان نے جو کارکردگی پیش کی ہے اسے دیکھتے ہوئے انہیں یقینی طور پر پہلی جگہ ملنی چاہیے۔ محمد رضوان نے آسٹریلیا کے خلاف اپنی ایک یادگار سیریز کھیلی اور اس دوران مڈل آرڈر میں خوب چمکے اور خود کو ایک قابلِ غور معیار کا حامل بلے باز ثابت کیا۔
اضافی کیپر ہونا ان کے لیے ہمیشہ فائدہ مند رہا ہے مگر رضوان شاید اس طرح ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہوں جس طرح معین خان 1996 میں راشد لطیف کے ساتھ اسکواڈ میں شامل ہوکر کھیلے تھے۔ تاہم پہلی جگہ تو ان کی ہی ہے۔
فیصلہ: اِن
حارث سہیل
یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ حارث سہیل جیسے کھلاڑی کا نام اس بیچ کی فہرست میں ہے، حالانکہ انہیں تو مڈل آرڈر میں شامل ہونا ہی چاہیے۔ ان کی سست نفاست کے مداحوں کا ایک الگ سے ٹولہ موجود ہے، گزشتہ برس 7 اننگز میں انہوں نے 60.66 کی اوسط کے ساتھ اسکور جوڑے۔
ان کے 364 رنز میں 2 سنچریاں اور ایک نصف سنچری شامل ہے۔ رضوان کی اس شاندار کارکردگی نے حارث سہیل کے لیے کسی نہ کسی طور پر خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ لیکن آپ یہ مت سوچیے گا کہ یہ ورلڈ کپ میں کچھ اچھا کریں گے، بلکہ یہ تو ناکام ترین 3 کھلاڑیوں میں سے ایک ہوں گے۔
فیصلہ: اِن
شان مسعود
زنز ناکافی ہیں۔ کسی بھی صورت پاکستان اپنی ٹیم میں تیسرا اوپنر لینے والا نہیں۔
فیصلہ: آؤٹ
عابد علی
زیادہ وقت ہی نہیں ہوا کہ متاثر کرپاتے۔
فیصلہ: آؤٹ
محمد نواز
ورلڈ کپ کے بعد 2 مستقل جگہوں کے مواقع دستیاب ہوں گے اور محمد نواز یقینی طور پر ایک مضبوط امیدوار ثابت ہوں گے۔ مگر اس وقت انہوں نے ایسا کھیل پیش نہیں کیا کہ موجودہ 2 جگہوں کے لیے چیلنج دے سکیں۔
فیصلہ: آؤٹ
آصف علی
آصف علی کسی کھلاڑی کے زخمی ہونے پر ہی ٹیم میں شامل ہونے کی امید کرسکتے ہیں۔ ان کا اسٹرائیک ریٹ تو 130 سے زیادہ ہے لیکن ان کے رنز بہت ہی کم ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں پاکستان کو دوبارہ یہ تعین کرنے کی ضرورت پڑے گی کہ کون ہے جو تباہ کن چھکے مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
فیصلہ: آؤٹ
محمد عامر
یہ امید ہی ہے جو مار ڈالتی ہے۔
ہر کوئی محمد عامر کا ’وہ‘ اسپیل دیکھنا چاہتا ہے، جس میں روہت شرما چِڑ گئے تھے اور بھارتی کپتان ویرات کوہلی دھوکہ کھا بیٹھے تھے۔ ورلڈ کپ برطانیہ یعنی اسی ملک میں ہونے جا رہا ہے جہاں بھارت کے خلاف چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں ٹورنامنٹ کی بہترین کارکردگی پیش کی گئی تھی۔ عامر یقینی طور پر بڑے میچ کے کھلاڑی ہیں۔
اس جادوئی فاسٹ باؤلنگ کا ایک اور اسپیل دیکھنے کی امیدوں کو دوبارہ بڑھکانے کی للچاہٹ اپنی جگہ مگر اعداد و شمار ساتھ نہیں دیتے۔ شاندار اکانومی ریٹ کے علاوہ، عامر میں ان کی مخصوص صفات سے بھرپور کارکردگی کی جھلک دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ بلاشبہ انہوں نے بلے بازوں پر دباؤ پیدا کیا مگر محض اس وجہ سے وہ ٹیم میں شامل نہیں ہوسکتے۔ پاکستانی فاسٹ باؤلرز میں اہم مقام رکھنے والے اس کھلاڑی سے وکٹیں لینے کی توقع کی جاتی ہے مگر لگتا ہے کہ گزشتہ سال سے یہ صلاحیت انہیں خیرباد کہہ چکی ہے۔
فیصلہ: آؤٹ
محمد عباس
صرف 2 ہی جگہیں خالی ہیں اور دونوں ہی فاسٹ باؤلرز پُر کریں گے۔ ممکن ہے کہ ایک جگہ اسپیڈ مرچنٹ کو مل جائے اور دوسری میڈیم پیسر سوئنگ باؤلر کے نام ہو۔
محمد عباس بھلے ہی ایکسپریس نہ ہوں لیکن انہیں اپنی دھن پر گیند کو نچانے کا فن بخوبی آتا ہے۔
اگر عامر کو نکال دیا جائے تو پاکستان کو ایسے فاسٹ باؤلرز کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو نئی گیند کے ساتھ باؤلنگ کرسکتے ہوں۔ پھر ذہن میں نام آتا ہے عباس کا، جو تجربے اور صلاحیت کے لحاظ سے بینچ میں ایک منفرد آپشن پر دستیاب ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے حال ہی میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے ذریعے ایک روزہ کرکٹ میں قدم رکھا ہے لیکن عباس کی جانب سے پچ پر دکھائے گئے داؤ پیچ انہیں ٹیم میں جگہ بنانے کی دوڑ کا ایک اہم کھلاڑی بنانے کے لیے کافی ہیں۔
حالیہ پی ایس ایل کی کارکردگی کے ساتھ وہ دورہ آسٹریلیا میں بھی اس بات کو ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کی صلاحیتوں کو کرکٹ کے چھوٹے فارمیٹس میں بھی منتقل کیا جاسکتا ہے۔ ورلڈ کپ اعصاب کا کھیل ہے اور عباس اعصاب کا پوری طرح سے استعمال کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔
سوئنگ باؤلر کے لیے ایک ہی جگہ ہو، تو کیا میں ورلڈ کپ کے موقعے پر عامر کے بجائے عباس کا انتخاب کروں گا؟
جی ہاں۔
فیصلہ: اِن۔
جنید خان
جنید خان نے جہاز پر سوار نہ ہونے کے لیے تو جیسے کوئی کسر چھوڑی ہی نہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ سوئنگ باؤلرز سے بھرپور ٹیم میں وہ چوتھا انتخاب ہیں۔
فیصلہ: آؤٹ
محمد حسنین
مستقبل تو محمد حسنین کا ہے، لیکن حال ملنا شاید قبل از وقت ہو۔ جارحانہ پیس کی صلاحیت کے مالک محمد حسنین ایک سنجیدہ آپشن ثابت ہوتے اگر ٹیم میں پہلے سے ہی کئی سارے پیس باؤلرز موجود نہ ہوتے۔
اگرچہ یہ بات کسی حد تک باعث تسلی ثابت ہو لیکن خوشی منانے کے لیے ایک کامیابی اپنی جگہ موجود ہے، یہ جوشیلا نوجوان تجربہ کار پیس باؤلر وہاب ریاض کو ممکنہ فہرست سے نکال باہر کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
فیصلہ: آؤٹ
عثمان خان شنواری
پاکستان نے سب سے شاندار کامیابی گزشتہ برس وانڈررس کے میدان میں حاصل کی تھی۔ جب جنوبی افریقہ نے بلے بازی کا فیصلہ کیا تو شاہین شاہ آفریدی اور عثمان خان شنواری نے باؤلنگ کا کھاتہ کھولا۔ پہلے شاہین نے ٹاپ آرڈر کے 2 بلے بازوں کو میدان سے باہر کیا پھر شنواری نے لیٹ آرڈر کے کھلاڑیوں کو باہر کیا۔
بائیں ہاتھ سے سوئنگ باؤلنگ کرانے والے عثمان شاید پاکستان کے نظامِ کرکٹ کا پیدا کردہ ایک سب سے بہترین انداز میں سنبھل سنبھل کر فاسٹ باؤلنگ کرانے والا نوجوان کھلاڑی ہے۔
انہیں ٹیم کے اندر بھی رکھا گیا اور ٹیم کے باہر بھی، اور انہیں ایک یا دو بار میچ کھیلنے کا موقع بھی دیا گیا۔ چیمپئنز ٹرافی کی جیت کے بعد سے عثمان 15 میچوں میں 28 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
شاہین عروج کو چھوتے رہے وہیں عثمان کم رفتار کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ لیکن اس بات پر کوئی شک نہیں کہ تیز رفتار سوئنگ یارکر کی صلاحیت نے انہیں ایک اضافی مہلک ہتھار بنادیا ہے۔
فیصلہ: اِن
ٰیہ مضمون 14 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں