سوڈان : مظاہرین کا فوج سے سول حکومت قائم کرنےکا مطالبہ
سوڈان میں صدر عمر البشیر کی برطرفی کے بعد احتجاج بدستور جاری ہے جہاں مظاہرین نے ملٹری حکام سے ’ فوری اور بغیر کسی شرط‘ کے آئندہ 4 سال کے لیے اقتدار سویلین کو دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
خبر ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 4 ماہ سے جاری مظاہروں کے منتظمین اور سیاسی جماعتوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پورے ہونے تک احتجاج کریں گے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ملک میں سول حکومت کا قیام موجودہ حکومت کے خاتمے کی جانب پہلا قدم ہوگا۔
فوجی کونسل نے گزشتہ روز احتجاجی تحریک کے منتظمین پر مشتمل وفد سے ملاقات کی تھی۔
مزید پڑھیں: سوڈان میں حکومت کا تختہ الٹنے والے فوجی کونسل کے سربراہ مستعفی
بعدازاں سوڈانیز کانگریس پارٹی کے رہنما عمر الدیغیر نے خرطوم میں آرمی ہیڈکوارٹرز کے باہر دھرنے میں شریک مظاہرین کو بتایا کہ ’ حالات مثبت ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے سیکیورٹی اداروں کے قوانین ازسر نو تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے اور ہمیں ایسی سیکیورٹی نہیں چاہیے جو لوگوں کو گرفتار کرے اور اخبارات کو بند کرے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے سوڈان کی ملٹری کونسل کے حق میں بیانات جاری کیے تھے۔
سعودی عرب نے اس حوالے سے جاری اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’سعودی عرب سوڈانی عوام کے ساتھ کھڑا ہے‘ بیان میں سوڈانی شہریوں سے ملک کے قومی مفاد کو ترجیح دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
متحدہ عرب امارات نے جنرل عبدالفتح برہان کو ملٹری کونسل کا سربراہ بننے کو خوش آئند قرار دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سوڈان: عوام نے فوجی حکومت کو بھی مسترد کردیا
خیال رہے کہ سوڈان کے وزیر دفاع جنرل عود ابن عوف نے 12 اپریل کو ملٹری کونسل کے سربراہ کے طور پر حلف اٹھایا تھا تاہم وہ اگلے ہی دن عہدے سے دستبردار ہوگئے تھے جس کے بعد 13 اپریل کو جنرل عبدالفتح برہان نے حلف اٹھایا۔
گزشتہ روز سرکاری نشریاتی ادارے سے جاری اپنے بیان میں عبدالفتح برہان نے کہا تھا کہ ملٹری کونسل نے سوڈانی عوام کے تمام مکاتب فکر کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔
انہوں نے ایک ماہ تک رات 10 سے صبح 4 بجے تک نافذ کیا گیا کرفیو ہٹانے اور فوری طور پر مظاہروں کے دوران گرفتار کیے گئے افراد کو رہا کرنے کا اعلان کیا تھا۔
خیال رہے کہ 11 اپریل کو سوڈان کی فوج نے ملک میں جاری مظاہروں کے باعث 30 سال سے برسر اقتدار صدر عمر البشیر کو برطرف کرکے گرفتار کرلیا تھا اور اقتدار بھی سنبھال لیا تھا۔
وزیر دفاع نے ملک میں 2 سال کے لیے فوجی حکمرانی کا اعلان کرتے ہوئے سول جمہوری تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کو مشتعل ہونے سے روکنے کے لیے ایمرجنسی بھی نافذ کردی تھی۔
فوج کی جانب سے صدر عمر البشیر کا تختہ الٹنے پر ہزاروں مظاہروں نے دارالحکومت خرطوم کے وسط کی طرف مارچ کیا تھا اور صدر کی برطرفی کی خوشیاں منائیں تھیں۔
مزید پڑھیں: سوڈان میں فوجی بغاوت، صدر عمر البشیر گرفتار
یاد رہے کہ 1989 میں عمر البشیر نے صادق المہدی کی حکومت کو برطرف کیا تھا جس کے بعد ملک میں انتخابی عمل رک گیا تھا۔
عود محمد ابن اوف نے کہا تھا کہ فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے بنائی جانے والی ملٹری کونسل آئندہ 2 سال تک حکومت کرے گی جس کے بعد ’ شفاف اور منصفانہ انتخابات کروائے جائیں گے‘۔
انہوں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ فوج نے آئین معطل کردیا، حکومت تحلیل کردی اور 3 ماہ کے لیے ایمرجنسی بھی نافد کردی، تاہم صدر عمرالبشیر کی برطرفی کے بعد فوجی نظام سنبھالنے پر بھی مظاہرین نے غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔
احتجاج کرنے والے رہنماؤں نے صدر کی برطرفی کے بعد تشکیل دی گئی ملٹری کونسل کو بھی مسترد کردیا تھا۔
مظاہرین نے ملک میں جمہوری نظام کے نفاذ کے لیے سول قیادت اور سوڈان میں جاری تنازعات کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا جن کی وجہ سے ملک بدترین غربت کا شکار ہے۔